لینڈ آف اپرچونٹی!!!

0
198
کوثر جاوید
کوثر جاوید

کوثر جاوید
بیورو چیف واشنگٹن

2020ءکے امریکی صدارتی انتخابات تاریخ ساز حیثیت اختیار کر گئے، 2016ءمیں ہیلری کلنٹن اور ڈونلڈ ٹرمپ آمنے سامنے تھے تو تمام پولز اور عوامی سرویز میں ہیلری کلنٹن آگے تھیں، تمام تجزیہ نگار سب کے سب ہیلری کلنٹن کے حق میں پیش گوئیاں کر رہے تھے جب الیکشن ہوئے تو امریکی شہریوں کے ووٹ ہیلری کلنٹن کو زیادہ پڑے لیکن الیکٹورل ووٹ ڈونلڈ ٹرمپ کو ملے جس سے وہ امریکہ کے صدر منتخب ہو گئے، ڈونلڈ ٹرمپ امیر کاروباری تھے، سیاست کا کوئی تجربہ نہ رکھتے تھے، انتخابی مہم میں جو وعدے کئے پورے کرنے میں مصروف رہے ،اس میں کوئی شُبہ نہیں ،سفید فام امریکیوں وہ بہت مقبول تھے۔ 2016ءسے 2020ءتک انہوں نے کئی اچھے کام بھی کئے لیکن اپنے رویے میں سختی اور زبان کی تیزی ان کے آڑے آئی۔ مسلم ٹریول بین، ڈاکا امیگریشن، امیگریشن ریفارم، میکسیکو بارڈر پر دیوار کی تعمیر جہاں کروڑوں امریکیوں کو خوش کرتی وہیں کروڑوں امیگرنٹس ان سے ناراض ہو گئے،ا پنے چار سالہ دور میں میڈیا سے ٹکراﺅ رہا، ججز کو تنقید کا نشانہ بنایا ،اپنی ہی پارٹی کے لوگوں کی مخالفت کی، ریاستوں کے گورنرز سے شدید اختلافات اور بیانات سے پھر ڈونلڈ ٹرمپ کے زوال کا باعث بنا، امریکہ گزشتہ کئی عشروں سے لینڈ آف اپرچیونٹی ہے کروڑوں امیگرنٹ یہاں بہتر مستقبل کیلئے بڑے اور کامیاب ہوئے تمام مذاہب کے لوگ ایک چھت کے نیچے گلدستے کی حیثیت سے اپنی زندگیاں گزار رہے ہیں۔
امیگرنٹس ڈونلڈ ٹرمپ کو امریکی رسم و روایات اور سسٹم میں دراڑ ڈالنے کا ذمہ دار ٹھہراتی ہیں، 2020ءانتخابات میں جوبائیڈن امریکی تاریخ کے سب سے زیادہ ووٹ لینے والے صدر بھی بن گئے اور ٹرمپ سب سے زیادہ ووٹ لے کر ہارنے والے پہلے امیدوار ہیں، ٹرمپ اپنی شکست کو تسلیم نہیں کر رہے اور کہا ہے کہ وہ وائٹ ہاﺅس نہیں چھوڑیں گے لیکن امریکی آئین اور سسٹم اتنا طاقتور اور مضبوط ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو وائٹ ہاﺅس ہر صورت چھوڑنا پڑے گا۔ 2020ءکے انتخابات میں جوبائیڈن کو زیادہ ووٹ ٹرمپ کی مخالفت میں پڑے تمام قوموں اور ملکوں کے لوگوں نے ایک خاص ایجنڈے کے ساتھ انتخابات میں حصہ لیا اور اپنے اپنے مطالبات سامنے رکھ کر جوبائیڈن کو ووٹ دیئے، خاص طور پر انڈین کمیونٹی نے بھرپور ایجنڈا رکھ کر ووٹ ڈالے، نائب صدر کملا ہیرس کا تعلق بھی انڈیا سے ہے اب جو بائیڈن نے بیس سے تیس انڈین امریکنز کو ہائی لیول پر اپنی انتظامیہ میں تعینات کرنے کا اعلان کیا ہے جبکہ پاکستانی امریکنزنے یوں تو سیاسی حکمت عملی کے بغیر حصہ لیا ، انہوں نے ذاتی کاروبار اور ذاتی مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے ووٹ ڈالے ، کوئی مسلم فار ٹرمپ بنا اور کوئی مسلم فار بائیڈن کا جھنڈا لئے پھرتا رہا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اب بائیڈن انتظامیہ میں کسی بھی پاکستانی کا کوئی نام نہیں لے رہا، اس لئے کہ سب کے سب پاکستانیوں نے انفرادی طور پر انتخابات میں حصہ لیا نہ نوکری اجتماعی ایجنڈا تھا نہ کوئی حکمت عملی اور یوں اس عظیم ملک جو لینڈ آف اپرچیونٹی ہے کا فائدہ لے سکے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here