جاوید رانا، بیوروچیفشکاگو
آج کا یہ کالم ایک کہانی سے شروع کرتے ہیں، کسی شہر میں نمک کا ایک بیوپاری شہر شہر گاﺅں گاﺅں اپنے گدھے پر نمک لاد کر فروخت کرتا تھا، ایک روز دریا پار کرتے ہوئے گدھا لڑ کھڑایا اور پانی میں گر گیا، مالک نے بڑی مشکل سے اسے نکالا تو گدھے کو اپنی پُشت پر بوجھ ہلکا محسوس ہوا، وجہ یہ کہ پُشت پر لدا ہوا نمک پانی میں گُھل گیا تھا۔ گدھے کو بہت اچھا لگا اور اس نے اپنا معمول بنا لیا کہ روز لڑ کھڑاتا اور بوجھ کم کر لیتا۔ مالک کو پتہ چلا تو اس نے گدھے کو سزا دینے کی سوچی اور گدھے کی پُشت پر روئی لاد دی، گدھا حسب معمول دریا میں لڑکھڑایا اور نتیجتاً اس کا دبارہ کھڑا ہونا بھی مشکل ہو گیا۔ وجہ قارئین بخوبی جانتے ہیں کہ روئی گیلی ہو کر بھاری ہو جاتی ہے، خواہ گدھے کی پُشت پر ہو یا کسی کے لپٹے ہوئے لحاف میں ہو۔ کچھ یہی کیفیت آج کل ہماری اپوزیشن کی بھی ہے کہ عمران خان کو ہٹانے کیلئے وہ اپنے احتجاجوں اور جلسوں، جلوسوں کو تبدیلی حکومت کے نمک کے بوجھ کو ہٹانے کا ذریعہ سمجھ رہی تھی، دوسری جانب کبھی استعفوں کا مطالبہ کرتی تھی تو کبھی بین السطور میں اسٹیبلشمنٹ سے اپنی وفاداری اور موجودہ حکومت کو ہٹانے کی خواہش کا اظہار کرتی تھی۔ لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ، گوجرانوالہ سے ملتان تک کے جلسے تو کسی نہ کسی طرح ہو ہی گئے لیکن لاہور کا 13 دسمبر کا جلسہ لگتا ہے کہ نواز لیگ کا گڈھ ہونے کے باوجود، اپوزیشن کی پُشت پر بھیگی ہوئی روٹی کا گٹھر ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن خصوصاً لیگ اب استعفوں کے اقدام پر کمر بستہ ہو گئی ہے۔ قدرت کی شان دیکھیں کہ سلیکٹڈ سے استعفے مانگنے والی اپوزیشن خصوصاً مریم نواز اپنے باپ کی خواہش پر اپنے ارکان پارلیمنٹ اور دیگر اپوزیشن پارلیمانی ارکان سے استعفوں کیلئے اپیلوں پر اُتر آئی ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ عالمی اور خطہ کی صورتحال میں حکومت کا گرایا جانا یا نظام کو لپیٹ دیا جانا کیا پاکستان کے حق میں ہوگا۔ عمران خان سے مملکت یا حکومت کے ایشوز پر اختلاف تو ہو سکتا ہے لیکن کیا یہ حقیقت نہیں کہ عالمی سطح اور خارجی محاذ پرعمران خان نے ملک کے امیج کو مثبت تاثر بخشا ہے۔ گزشتہ ہفتہ اقوام متحدہ کے ورچوُل اجلاس سے کرونا کے ایشو پر کپتان کا خطاب اور دس نکاتی ایجنڈا دنیا بھر میں سراہا جا رہا ہے۔ دوسری جانب پی ڈی ایم کی صورت میں اپوزیشن کے جلسے اور ریلیاں کرونا کی دوسری لہر کو مزید خطرناک اور ہلاکت خیز بنانے کا سبب بن رہے ہیں۔ پہلی لہر میں جہاں اثرات کی شرح 2 فیصد سے بھی کم تھی اب بڑھ کر8 فیصد پر پہنچ گئی ہیں۔ عوام کو مہنگائی، بیروزگاری اور بدحالی سے نجات دلانے کے دعوﺅں کی آڑ میں اپوزیشن اپنے جلسوں میں صرف عمران ہٹاﺅ، اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ بیانیہ پر ہی سارازورمرکوز کئے ہوئے ہے۔ اس سارے کھیل میں سب سے گندا کردار نوازشریف اور مریم نواز کا ہے۔ مفرور قرار دیا گیا باپ لندن میں بیٹھ کر فوج، ایجنسیزاور عدلیہ کے سربراہوں کےخلاف زہر اغل رہا ہے۔ تو بیٹی یہاں رہتے ہوئے جلسوں، ریلیوں اور ٹوئٹس کے ذریعہ مودی اور بھارتی ایجنڈے پر کام کر رہی ہے۔ اپنے مفاد کی خاطر بھارتی ایجنڈے پر عمل پیرا ان باپ بیٹی کا کردار بھارت کی غلامی کی تصویر ہے اور پاکستانی قوم بھارتی آلہ¿ کاروں کی حامی کبھی نہیں ہو سکتی۔ جلسوں سے ان کی نہیں گلی تو اب یہ استعفوں کی دھمکیوں پر اُتر آئے ہیں لیکن کیا پی ڈی ایم کی تمام جماعتیں بشمول پیپلزپارٹی (جس کی سندھ میں حکومت ہے) تیار ہو جائیں گی۔ مولانا خود تو منتخب نہ ہو سکے مگر کیا ان کا بیٹا اور بھائی مستعفی ہونگے۔ اسی طرح کے پی اور بلوچستان کے اپوزیشن اراکین کا بھی سوال اُٹھتا ہے۔ فرض کریں کہ ساری اپوزیشن استعفے دے بھی تو کیا موجودہ حکومت کو ہی نقصان ہوگا؟ ایسی صورت میں پارلیمان کے معاملات متاثر ضرور ہو سکتے ہیں لیکن آئینی طور پر دوبارہ انتخابات (بائی الیکشن) ہو سکتے ہیں یا دوسری صورت میں صدر اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے ایمرجنسی ڈکلیئر کر کے قومی حکومت تشکیل دے سکتے ہیں۔ اس صورت میں بھی ان مخالفین کو ہزیمت ہی مل سکتی ہے۔
اسی سوچ کے تحت نوازشریف اور اس کی بیٹی ریاستی اداروں اور حکومت کےخلاف ایسے بیانیہ پر اُتر آئے ہیں جو نظام کو لپیٹنے کا سبب بنے۔ لاہور جلسہ کے حسب منشاءکامیاب نہ ہونے کے حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے مریم نواز اور ن لیگ کے نوازشریف کے سپورٹرز نے ریلیوں اور کنونشن کا ڈرامہ رچایا ہے۔ فیصل آباد میں جس طرح کی زبان استعمال کی گئی خصوصاً سعد رفیق نے پنجابی کارڈ استعمال کرنے کی کوشش کی وہ کسی بھی طرح قابل قبول نہیں ہو سکتی۔ لاہور میں مریم نواز کے بلائے ہوئے سوشل میڈیا کنونشن کو تو بدتہذیبی اور غنڈہ گردی کا بدترین مظاہرہ بھی کہا جا سکتاہے۔ جہاں نہ صرف گو نواز گو کے نعرے لگے بلکہ خود مریم نواز اور مائزہ حمید بھی اس بے ہنگم ہجوم کی بدمعاشیوں اور چیرہ دستیوں سے نہ بچ سکیں۔ سوشل میڈیا نے ویسے بھی معاشرے میں صرف گند ہی مچایا ہے۔ذہنی احتراع سے بے سروپا خبریں جھگڑے اور گالیاں ان کا شعار اور قوم کو غلط راہ پر لگنا ہی ان کا کام ہے۔ جس کے معاشرتی اثرات بگاڑ کا سبب بنتے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ گزشتہ کئی عشروں سے پاکستان کا نظام سیاست و جمہوریت غلامی اور غلاموں کی ہی تصویر تصویر کشی کر رہا ہے جس میں اپنی اغراض، مفادات اور برتری کے خواہشمند، سیاسی، کاروباری اور غیروں کے ایجنڈے پر کام کرنے والے غلاموں کوان کے زیر نگر محکوم غلام عوام بہ درجہ مجبوری منتخب کر کے ایوانوں میں بھیجتے ہیں اور اپنی غلامی و بے کسی پر مہر لگا لیتے ہیں۔ جمہوریت کے نام پر وڈیرے، جاگیردار، سردار کاروباری ڈکیت ولٹیرے اپنی باریاں لگاتے ہیں اور عوام کی حالت مزید ابتر ہوتی جاتی ہے۔ تحریک انصاف اور عمران خان کی صورت میں روشنی کی ایک کرن نظر آتی ہے لیکن اغراض کے غلام یہ اپوزیشن والے کسی طرح چین سے بیٹھنے والے نہیں۔ غلامی کی ان زنجیروں سے آزاد ہونے کیلئے جہاں ایک جانب تمام اسٹیک ہولڈرز کو مل کر نظام انتخابات و مملکت میں موجود خامیوں کو ختم کرنا ہوگا وہیں عوام کو بھی بھیڑ بکریوں کے ریوڑ کی طرح آقا کے پیچھے چلنے سے نکل کر شعور کا راستہ اپنانا ہوگا۔ ورنہ یہی ہوتا رہے گا کہ غلام آقاﺅں کو غلام عوام منتخب کرتے اور مزید غلامی میں جکڑے جاتے رہیں گے۔
٭٭٭