اپوزیشن کے استعفے اور حکومتی وزرا!!!

0
196
ماجد جرال
ماجد جرال

پاکستان جمہوری تحریک المعروف پی ڈی ایم کی جانب سے حکومت کو جو اسمبلیوں سے استعفوں کی دھمکی دی جا رہی ہے اس پر حکومتی وزراء کے بیانات بظاہر اس بات کی عکاسی کر رہے ہیں کہ انہیں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔اس پر مجھے ایک واقعہ یاد آگیا کہ ایک سردار صاحب اپنی زندگی سے اتنے بیزار تھے کہ جب شوگر کی بیماری کے باعث ڈاکٹروں نے بتایا کہ تمہاری ٹانگ کاٹ دی جائے گی تو اس نے بڑی بے فکری سے کہا کوئی بات نہیں، میں دوسری ٹانگ پر چل لوں گا۔ ان سردار صاحب اور پاکستان کی موجودہ حکومت کے لئے دیکھا جائے تو بڑا مسئلہ شوگر(چینی اسکینڈل) سے ہی شروع ہوا۔ پاکستان کی موجودہ حکومت کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ ان کے دور میں ایک چینی سکینڈل حکومتی پارٹی کے عہدیدار جہانگیر ترین کی وجہ سے شروع ہوا جب کہ دوسرا چینی اسکینڈل یعنی سی پیک بعض دیگر ممالک کی جانب سے پیدا کیا گیا۔ بہرحال پاکستان کی سیاست میں اس وقت زیادہ شور اپوزیشن پارٹیوں کی استعفوں کی دھمکیوں سے متعلق ہے۔ حکومتی وزرائ اور حکومتی پارٹی کے کارکنان سمجھتے ہیں کہ استعفوں سے کوئی فرق نہیں پڑے گا اور فورا الیکشن کے ذریعے اس خلا کو پر کر دیا جائے گا۔ مگر یہ کوئی اتنا آسان کام نہیں۔ اس موضوع پر میں اپنے ایک وی لاگ میں بھی بات کرچکا ہوں کہ کوئی بھی حکومت کسی صورت اپوزیشن کے استعفوں کو برداشت نہیں کر سکتی۔ جمہوری جسم میں اگر ایک ٹانگ حکومت ہوتی ہے تو دوسری ٹانگ کا نام اپوزیشن ہے۔ حکومت کے سامنے بے شمار مسائل اور چیلنجز ہوتے ہیں، اور یہی مسائل و چیلنجز اپوزیشن کا حکومت کے خلاف بڑا ہتھیار ہوتا ہے۔ اپوزیشن کے پاس اپوزیشن کرنے کے سوا کوئی کام نہیں ہوتا جبکہ حکومت کے لیے اپوزیشن کا مقابلہ کرنے کے سوا بھی بے شمار کاموں کے انبار لگے ہوتے ہیں۔فرض کیجئے کہ اپوزیشن اسمبلیوں سے استعفے دے دیتی ہے، تو پاکستان میں سیاست کا نیا روپ کیا نکلے گا۔ کیا استعفے دینے کے بعد اپوزیشن صرف سڑکوں پر ہوگی؟کیا اپوزیشن ضمنی انتخابات کا بائیکاٹ کرے گی؟اور اگر اپوزیشن ضمنی انتخابات کا بائیکاٹ کرتی بھی ہے تو اپوزیشن پارٹیوں کے ووٹرز آزاد حیثیت میں انتخابات لڑنے والوں کی بجائے حکومتی امیدواروں کو ووٹ کریں؟یہ وہ سوالات ہیں جن پر حکومتی وزراءکو کوئی بھی بیان بازی کرنے سے پہلے ضرور سوچنا چاہیے۔اور ایسا بھی نہیں کہ وہ یہ سوچتے نہیں ہوں گے مگر کیا کریں حکومتی وزراءاس خوش فہمی میں مبتلا ہے کہ وہ جو بیانیہ اپناتے ہیں وہی امر ہوجاتا ہے۔ہم اپنے طور پر کوشش کرتے ہیں کہ ایک تصور ذہن میں لائیں کہ اپوزیشن کے استعفوں کے بعد ضمنی انتخابات ہوتے ہیں تو کیا صورت حال ہوگی۔پاکستان کی موجودہ حکومت کے لیے پہلے ہی بے شمار چیلنجز ہیں جن میں مہنگائی سرفہرست ہے۔ آپ پاکستان کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں آپ کو ہمیشہ مہنگائی کے باعث ہی حکومتیں جاتی نظر آئیں گئی۔جو حکومت پہلے ہی تمام تر اسٹیبلشمنٹ کی سپورٹ کے باوجود ان چیلنجز کا مقابلہ کرنے میں کامیاب نظر نہیں آرہی، اس کو اگر ضمنی انتخابات کی صورت میں چار ماہ مزید اپوزیشن کا سخت مقابلہ کرنا پڑ گیا تو حالات کیا رخ اختیار کریں۔
یہ ضمنی انتخابات حکومت کے لیے ایک بڑا امتحان ہوں گے۔ حکومت کو اپنی مقبولیت ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگانا پڑے گا۔ انتخابات 2018 کی طرح اسٹیبلشمنٹ کو ایک بار پھر پردے سے نکل کر سامنے آنا پڑے گا۔ اپوزیشن تو پہلے ہی سڑکوں پر ہے اس کی ہنگ لگے نہ پھٹکری والا حساب ہے۔ مالی مشکلات کا شکار حکومت کو انتخابات کے لیے وسائل اور سکیورٹی بھی دینا ہوگئی۔
اور ساری مشقت کے بعد حکومت اگر چند سیٹیں جیت بھی جاتی ہے تو کیا سڑکوں پر اپوزیشن کا میلہ ختم ہو جائے گا۔
درحقیقت حکومت وہی کر سکتا ہے جس میں برداشت کا مادہ ہو۔ حکومت پہلے دن سے ہی فہم و فراست کے ذریعے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے کام شروع کر دیتی ہیں۔ مگر موجودہ حکومتی رویے کے باعث معاملات اس حد تک بگڑ چکے ہیں کہ اب کوئی کسی پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں۔
اسٹیبلشمنٹ بری طرح بے نقاب ہو چکی ہے تو دوسری جانب حکومت کو اپنے بیانیے کی وجہ سے بھی شدید عوامی تنقید کا سامنا ہے۔ تین سال ہونے کو ہے احتساب کا جادو اپنا اثر کھو رہا ہے۔ اپوزیشن پارٹیاں بلاشبہ اپنے ذاتی مفادات کے لیے ہی سڑک پر ہیں مگر عوامی درد کے گلی محلوں میں انہی کا راج ہے۔ اس لیے حکومتی وزرائ جو اس بات کو بڑا ہلکا لے رہے ہیں کہ اپوزیشن کے استعفوں سے کوئی فرق نہیں پڑے گا وہ جان لیں سردار صاحب آپریشن کے بعد دوسری ٹانگ پر چلتے تو رہے لیکن بیساکھی کے بغیر وہ دو قدم چلنے کے قابل نہیں تھے۔
آپ جس اسٹیبلشمنٹ کی بیساکھی کے سہارے چلنے کے خواب دیکھ رہے ہیں یاد رکھیں بیساکھی پر چلنے والا ہمیشہ لنگڑا ہی کہلاتا ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here