ہم کہاں کھڑے ہیں!!!

0
165
جاوید رانا

 

جاوید رانا، بیوروچیفشکاگو

ہمارے کچھ چاہنے والے قارئین و احباب نے توجہ دلاتے ہوئے اصرار کیا ہے کہ بھارت پاکستان دشمنی کی جن حدوں کو چُھو رہا ہے اور جس طرح تقریباً ہر روز سرحدوں پر مسلسل خلاف ورزیاں کر کے ہمارے شہریوں اور عسکری محافظوں کو شہید یا زخمی کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے، اس حوالے سے اظہار خیال اور بھارتی حکومت کو اس کی نفرت انگیز حرکات سے باز رکھنے کیلئے ریاستی پالیسی کے حوالے سے لائحہ عمل تجویز کریں۔ عرض یہ ہے کہ ہم نہ کوئی اسٹریٹجک ماہر ہیں اور نہ ہی کوئی دفاعی تجزیہ کار کہ ان حالات پر کوئی تفصیلی تجزیہ یا حکمت عملی پیش کر سکیں۔ یہ کام دراصل ہمارے ریاستی اداروں اور سیاسی اشرافیہ کا ہے کہ وہ ایک منضبط اور واضح حکمت عملی سے بھارت کی ان ریشہ دوانیوں اور جنگی جنون کی کیفیت کا نہ صرف داخلی ملکی سطح پر بلکہ عالمی سطح پر بھی ابلاغ کریں۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ہماری حکومتی قیادت بھارت کی شر انگیزیوں اور پاکستان مخالف سرگرمیوں کےخلاف پروایکٹو لائحہ عمل کی جگہ ری ایکٹو پالیسی پر عمل پیرا نظر آتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ بھارتی سازشوں، پاکستان مخالف پروپیگنڈے کےخلاف ہماری عالمی سطح پر کوششوں کے باوجود عالمی قوتیں اور اداروں حتیٰ کہ مسلم ممالک اور اداروں سے بھی ہمیں خاطر خواہ سپورٹ اور عملی رسپانس نظر نہیں آتا۔ ان حالات کی وجوہات کو سمجھنے کیلئے ہمیں نہ صرف اپنے خارجی معاملات پر بلکہ داخلی خصوصاً سیاسی و معاشی معاملات کا جائزہ لینا ہوگا اور بھارت سے اس کا موازنہ کرنا ہوگا۔ بھارت یوں تو قیام پاکستان سے ہی اس کے وجود سے منکر ہے اور طرح طرح سے مخالفانہ ہتھکنڈوں سے وقتاً فوقتاً جنگی محاذ آرائیوں سے اپنے مکروہ ایجنڈے پر عمل پیرا رہتا ہے۔ پاکستان میں اپنے ایجنٹوں اور پروردہ مذہبی و عسکری جماعتوں کے ذریعے دہشتگردی، قتل و غارت اور بد امنی کے حوالے سے تو بھارت کےخلاف پاکستان کا یو این میں ڈوزئیر اور عالمی عدالت سے کلبھوشن کا مجرم قرار دیا جانا اس کا بڑا ثبوت ہے۔ بھارت ایک ارب 20 کروڑ سے بھی زائد آبادی کا ملک ہونے کے ناطے امریکہ، یورپ، خلیجی و عرب ممالک کے معاشی مفادات کی اہم مارکیٹ کی حیثیت رکھتا ہے اور فی زمانہ ملکوں اور قوموں کے تعلقات، مذہب، عقیدے، طاقت یا نسل کی جگہ معاشی بنیاد پر زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ پاکستان کی معیشت اور سیاسی صورتحال جس سطح پر ہے، اس کے باعث پاکستان کی اسٹریٹجک پوزیشن، مضبوط و فعال ہونے کے باوجود بھی متاثر ہوتی ہے۔ موجودہ عالمی صورتحال میں جب دنیا سیاسی و معاشی وجوہ کی بناءپر دو بڑے بلاکس میں منقسم ہو گئی ہے، اسلامی اُمہ بھی بوجوہ متحد نظر نہیں آتی۔ سعودی عرب اور ترکی کے درمیان مسلم اُمہ کی قیادت کی رسہ کشی، عرب، ایران تنازعاتی کیفیت کے باعث پاکستان کی تمام برادر اسلامی ممالک سے مساویانہ تعلقات کی پالیسی کارگر ہوتی نظر نہیں آرہی ہے۔ یمن کی جنگ میں سعودی شراکت سے گریز کی پالیسی، ملائیشیا میں شرکت کرنے نہ کرنے کے مخمصے سے پاک سعودی تعلقات متاثر ہونے کےساتھ ہی عالمی گروپس میں اسلامی ممالک کی تقسیم اور بھارت سے مغربی عرب ممالک کے بڑھتے ہوئے معاشی مفادات اس کی وجوہات ہیں۔
بھارت میں مودی کی حکومت آنے کے بعد سے پاکستان دشمنی نہ صرف مزید بڑھی ہے بلکہ اپنے جن سنگھی منشور پر عمل کرتے ہوئے مودی اور را نے اپنی اقلیتوں کےساتھ جو ظلم و ستم برپا کر رکھا ہے اس کی حدت ختم کرنے کیلئے بھی بھارت پاکستان کےخلاف مسلسل شر انگیزیوں پر اُترا ہوا ہے۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ سعودی عرب، یو اے ای اور دیگر خلیجی ممالک اپنے معاشی مفادات کیلئے بھارت میں انوسٹمنٹس کرر ہے ہیں اور اس تناظر میں پاکستان سے اپنے دیرینہ تعلقات کی پرواہ نہ کرتے ہوئے بھارت نوازی کو ترجیح دے رہے ہیں۔ بھارت میں وہ اپنا سرمایہ لگا کر انوسٹمنٹ کر رہے ہیں جبکہ پاکستان کو وہ امداد یا گرانٹ دیتے ہیں۔ سعودی عرب اور یو اے ای 42 بلین ڈالر کے سرمائے سے ایک ریفائنری لگا رہے ہیں جبکہ محمد بن سلمان کا20بلین ڈالر کی انویسٹمنٹ کا واحد ہنوز تشنہ تکمیل ہے۔انہوں نے تو3بلین قرضے کی رقم بھی پاکستان سے واپس مانگ لی ہے۔ سعودی عرب اور یو اے ای کی پاکستانی لیبر ویزا پر پابندی اور لاکھوں پاکستانیوں کو ملازمت سے فارغ کر کے بھارتیوں کو ملازمتیں دینا بھی حالات کی واضح نشاندہی ہے۔ ان حالات میں بھارت کے لیے پاکستان کےخلاف دشمنانہ حرکات اور اپنے بگڑتے ہوئے داخلی حالات سے دنیا کی توجہ ہٹانے کا اس سے بہتر کوئی راستہ نہیں ہو سکتا۔ کشمیریوں پر ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑنے، اقلیتوں اور کسانوں کے حقوق کی سلبی اور چین سے مار کھانے والے مودی اور اس کی حکومت کو اپنی خفت مٹانے کیلئے پاکستان مخالف پروپیگنڈے، ایل او سی پر فائرنگ اور فالس فلیگ آپریشن و سرجیکل اسٹرائیک کی دھمکیوں کے سواءکوئی چارہ نہیں ہے۔ وہ الگ بات ہے کہ 2019 میں وہ اپنا حشر دیکھ چکے ہیں۔
پاکستان الحمدللہ دنیا کی بہترین عسکری صلاحیتوں کی حامل افواج اور ملکی سلامتی کیلئے متحد و مجتمع قوم کی مملکت ہے اور بھارت جیسے جنونی ملک کہ منہ توڑ جواب دینے کی استطاعت رکھتا ہے تاہم معاشی طور پر ایک مستحکم پوزیشن کیلئے بہت سی مشکلات سے دو چار ہے ۔ معاشی ابتری کی یہ صورتحال یکدم ہی رونما نہیں ہوئی ہے، گذشتہ کئی دہائیوں کی حکومتوں ، مافیاز اور لوٹ مار کرنے والوں کی بد اعمالیوں کا نتیجہ ہے۔ موجودہ حکومت معاشی صورتحال کی بہتری کیلئے کوششیں کر رہی ہے اور امید ہے کہ سی پیک ، ٹورزم اور دیگر پیداواری شعبوں کی بہتری نیز کرپشن کے تدارک سے مستقل قریب میں ہم معاشی ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو جائینگے۔ بات یہ ہے کہ ملکوں اور قوموں کی ترقی میں ریاست و دیگر شعبوں کے تمام عناصر کی مساویانہ شرکت لازمی امر ہے مگر ہماری سیاسی اشرافیہ خصوصاً حزب اختلاف کے روئیے اور بیانیئے کسی بھی طرح ملک کے مفاد میں ہیں ہیں ۔ ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں اپنی کرپشن ، لوٹ مار کی سزاو¿ں سے بچنے ، اقتدار کے حصول کیلئے ہر جا بے جا طریقہ اپنا کر انتشار و افتراق کی صورت برپا کرنا چاہتی ہیں نواز شریف ، مریم نواز ، فضل الرحمن اور اچکزئی جیسے لوگ فوج ، ملک اور قوم کے خلاف زہر اگل کر دشمن کے ایجنڈے کو تقویت پہنچانے میں معاون بنے ہوئے ہیں اور عوام میں تفریق ڈالنے کا باعث بن رہے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ بھارتی آرمی چیف کے سعودی عرب و دبئی کے دورے کو بنیاد بنا کر بھارتی میڈیا اور لیڈر پاکستان اور ہماری افواج کے خلاف ہذیان بک رہے ہیں ۔ لیکن ہمارے سیاسی کرتا دھرتا حکومت گراو¿ اور استعفوں کے طوفان میں گھرے ہوئے ہمارے سیاسی رہنماو¿ں کو سوچنا ہو گا کہ اس وقت پاکستان کہاں کھڑا ہے۔ بھارت کی بدمعاشیوں اور موجودہ حالات میں اپنے دیرینہ دوستوں کی بے ائتنائیوں کے تدارک کے لیے ساری قوم خصوصاً سیاسی اشرافیہ کا اتحاد اور یک زبان و یکجا ہونا اہم ترین ہے۔ سیاسی جھگڑے ملکی بقاءسے بڑھ کر نہیں ۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here