خارجی نہیں داخلی کامیابی بھی ضروری ہے!

0
474
جاوید رانا

جاوید رانا، بیوروچیفشکاگو

ہم نے گزشتہ ہفتے عالمی منظر نامے میں امریکہ کے حوالے سے اپنے کالم میں پاکستان کے حوالے سے امریکہ کی خود غرضی پر اپنی گزارشات پیش کرتے ہوئے عرض کیا تھا کہ ہمیں اپنا قبلہ درست کرنا ہوگا۔ آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف کے ذریعے امریکی مفادات اور بھارتی مخالفانہ حرکتوں کی بیخ کنی کیلئے اپنے گھر کو مضبوط کرنا ہوگا۔ خارجی اور داخلی دونوں محاذوں پر اپنی پالیسیوں پر توجہ اور عمل سے ایک قوم کا تاثر قائم کرنا ہوگا۔ ایک متحد و یکجہت قوم کا عملی مظہر مملکت کا اتحاد کا سب سے روشن چہرہ ہے، جو عالمی اُفق کو واضح پیغام دے۔ آئی ایم ایف کا تیسری قسط دینے کیلئے پاکستان کو چین کی ادائیگی روکنے کا مطالبہ محض ایک پالیسی مطالبہ نہیں تھا بلکہ اس کے پیچھے امریکہ کا چین مخالف پالیسی اور پاکستان کی معاشی جدوجہد پر دباﺅ ڈالنا تھا، الحمد للہ وزیراعظم نے نہ صرف اس مطالبے کو مسترد کیا بلکہ پاکستان کے چین سے اشتراک و دوستی کے مو¿قف پر ڈٹے رہنے کاعندیہ بھی دیا اور خوشی کی بات یہ ہے کہ اس مو¿قف پر تمام ریاستی، سیاسی قوتوں نے بھی یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔
خوشی کا امر یہ بھی ہے کہ گزشتہ ہفتہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کے حوالے سے بہت سے مثبت پہلوﺅں کا مظہر ثابت ہوا۔ ترک صدر اردوان کا دورہ، پارلیمنٹ سے تاریخی خطاب اور متعدد معاشی، دفاعی و افرادی قوت وغیرہ سے متعلق معاہدات نہ صرف پاکستان کے روشن مستقبل اور خوشحالی کا سبب ہو سکتے ہیں بلکہ ترکی و پاکستان کے دیرینہ و تاریخی تعلقات کی مزید پائیداری کا سب بھی بن سکتے ہیں۔ اسی طرح اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گریس کا دورہ بھی نہ صرف پاکستان کے مہاجرین کی آباد کاری، افغان امن عمل میں پاکستان کے کردار پر مثبت مو¿قف اور سیکرٹری جنرل کے اظہار تحسین کا باعث رہا بلکہ کشمیر کی آزادی اور مودی حکومت کے مقبوضہ کشمیر میں غیر آئینی اور ظالمانہ اقدامات پر پاکستان کے مو¿قف کی مضبوطی کا آئینہ دار بنا۔ انتونیو گریس نے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے ثالثی کا کردار ادا کرنے کی بھی پیشکش کی۔
یقیناً یہ واقعات پاکستان کی بہتر خارجہ پالیسی اور وزیراعظم عمران خان کی اس حوالے سے جدوجہد اور کرشماتی شخصیت کے حوالے سے عالمی منظر نامے پاکستان کے روشن چہرے کیلئے معاون ہوں گے لیکن ایک خود مختار، آزاد اور متحد قوم کے واضح تاثر کیلئے ہمیں اپنے گھر کے اندر کے معاملات کو بھی مل کر سنبھالنا اور بہتر بنانا ہوگا۔ پاکستان پانچ اکائیوں کی وحدت ہے اور جب تک پانچوں اکائیوں میں یکجہتی اور عوام و ریاست کیلئے مثبت عمل پذیری نہ ہو پاکستان کی مکمل روشن تصویر مشکل ہی رہے گی۔ یہاں ہمیں وہ ضرب المثل یاد آرہی ہے جس میں ایک شخص کے پانچ بیٹے تھے، مستقل آپس میں لڑتے جھگڑتے تھے اور کسی معاملے پر متفق و متحد نہیں ہوتے تھے۔ بوڑھے باپ نے ایک دن پانچوں بیٹوں کو جمع کیا اور ہر ایک کو پانچ لکڑیوں پر مشتمل گٹھا دے کر توڑنے کا کہا۔بیٹوں نے بہت کوشش کی پر ان سے وہ گٹھا نہ ٹُوٹا پھر باپ نے ان سے لکڑیوں کو الگ کر کے توڑنے کو کہا تو ہر بیٹے نے لکڑیاں توڑ دیں، باپ نے یوں مل جل کر رہنے اور آپس میں افتراق کرنے کے فوائد و نقصانات سے آگاہی و نصیحت دی۔ کچھ یہی حال پاکستان کی پانچوں اکائیوں کا بھی ہے۔ ان اکائیوں کے سیاسی بھائی اپنے سیاسی و مفاداتی مقاصد کے تحت باہم اختلافات میں اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ وفاق و صوبوں میں نزاعی صورتحال کے باعث عوام اور شہروں کی حالت زار بد سے بدتر ہو جاتی ہے، شہری، انتظامی و معاشی صورتحال ابتری کو پہنچ کر نہ صرف اکائی کے نقصان کا باعث بنتی ہے بلکہ وفاق کی مضبوطی میں دراڑ ڈالنے کےساتھ عالمی تناظر میں کمزور اور غیر فعال ریاست کا تاثر پیش کرتی ہے۔ دُکھ اس بات پر ہوتا ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں اس تمام کھیل میں اپنے سیاسی مفادات و برتری کیلئے معاشرت، معیشت، ترقیاتی امور اور عوامی بہتری کو قطعی نظر انداز کر کے تذلیل اور کمتری تک پہنچا دیتی ہیں۔ آج پاکستان کے چاروں صوبوں (پانچوں گلگت بلتستان ہے) میں سے تین صوبوں میں تحریک انصاف کی حکومت بلا واسطہ یا بالواسطہ ہے جبکہ سندھ پیپلزپارٹی کے زیر حکومت ہے۔
موجودہ حالات یہ ہیں کہ مہنگائی، غربت، بیروزگاری، لاءاینڈ آرڈر اور گورننس کی خرابی کا عفریت ہر صوبہ اور صوبوں کے ہر شہر میں عوام کی زندگی اجیرن کئے ہوئے ہے۔ پنجاب و پختونخواہ اور بلوچستان بھی مثالی حیثیت تو نہیں رکھتے لیکن سندھ جہاں گزشتہ گیارہ سال سے پیپلزپارٹی کی حکومت ہے اس کا حال بدترین نظر آتا ہے۔ شہر ہوں، دیہات، گوٹھ ہر جگہ بدنظمی، ابتری، لاقانونیت اور لاپروائی کے مظاہر ہیں، کتوں کے کاٹنے کے معاملات ہوں، ایڈز کی بیماری ہو، ناجائز قبضوں کی و ارداتیں ہوں، قتل و غارت گری ہو یا زبردستوں اور پولیس کے درمیان رسہ کشی کوئی شہر یا قصبہ بھی محفوظ نہیں۔ پیپلزپارٹی کا گڑھ لاڑکانہ پیرس بنائے جانے کے دعوے کے برعکس عوام کیلئے جہنم زار بن چکا ہے۔ کراچی جو پاکستان کا معاشی دارالخلافہ ہے اور وفاق کو 60 فیصد ریونیو دینے کا سبب ہے۔ اس کی معاشی و معاشرتی صورتحال اس قدر خراب ہو چکی ہے کہ الامان الحفیظ۔ وفاق اور صوبہ کی لڑائی میں معاشی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ کاروبار ٹھپ ہوتے جا رہے ہیں، قبضہ مافیا اور بلڈنگ کنٹرول و شہری اداروں کی سازشوں نے کراچی کا خوبصورت چہرہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ عوام مہنگائی، بنیادی اشیائے ضرورت کی عدم فراہمی اور ملازمتوں و روزگار سے محرومی میں پھنس کر اس نہج پر آچکے ہیں کہ وہ زندہ ہے بھٹو کے نعرے کو عوام کو مُردہ بنانے کا ذریعہ گردانتے ہیں آئے دن قتل، لُوٹ مار، گاڑیوں کے چھینے جانے کےساتھ شہری سہولتوں کی عدم فراہمی میں پھنسے ہوئے ہیں اور نہ ہی صوبائی حکومت اور نہ ہی الطاف حسین کے پرورہ میئر کراچی وسیم اختر کو یہ توفیق ہو رہی ہے کہ وہ شہر کو کچرے کے ڈھیروں و لاءاینڈ آرڈر کی بہتری پر کوئی عملی اقدامات کریں اور عوام کو سکون کا سانس مہیا کر سکیں۔ کراچی سے سب سے زیادہ قومی اسمبلی کی سیٹیں حاصل کرنےوالے ارکان پی ٹی آئی بھی محض وزیراعظم کی خوشامدوں اور پیپلزپارٹی کےخلاف آواز بلند کرنے کے علاوہ کوئی عملی رویہ نہیں اپنا رہے ہیں۔ صوبائی اسمبلی میں حزب اختلاف کی قیادت کرنے والے پی ٹی آئی اور حلیف ارکان بھی محض میڈیا پر شور شرابا کرتے نظر آتے ہیں اور بس۔ چیف جسٹس پاکستان کے خصوصاً سرکلر ریلوے اور دیگر سرکاری و فلاحی اراضی پر قبضہ مافیا کےخلاف ایکشن کے احکامات پر بھی صرف تھوک لگانے کا کام ہو رہا ہے صوبے اور وفاق میں فنڈز کے معاملات، آئی جی کی تبدیلی اور ایک دوسرے کو ہدف ملامت بنانے کا عمل جاری ہے۔ شہید بھٹو کی سیاسی وراثت کے دعویدار کو اپنے باپ اور پھوپھی کو بچانے کیلئے عمران خان کی حکومت گرانے اور بے تُکے دعوﺅں کے شور شرابے کے سواءکچھ نظر نہیں آتا کہ وہ اپنی صوبائی حکومت کو کراچی بلکہ سندھ کی بہتری کیلئے متحرک کرے۔
ماضی میں الطاف مافیا نے شہری علاقوں میں بالخصوص جو غنڈہ گردی اور لُوٹ مار مچائی تھی پیپلزپارٹی نے اسے مزید بد تر صورتحال میں لا کھڑا کیا ہے گزشتہ ایک ہفتے کے واقعات پر ہی نظر ڈالیں تو خود پیپلزپارٹی کی رکن صوبائی اسمبلی کا قتل، بلاول بھٹو کے لانگ مارچ پر سندھ کے سینئر صحافی عزیز میمن کے حقیقی شواہد منظر عام پر لانے کے باعث قتل اور اتوار کی رات کیماڑی میں زہریلی گیس کے اخراج سے 8 افراد کی موت اور سینکڑوں متاثرین کے ہسپتالوں میں داخلے کے واقعات پر نہ صوبائی حکومت کے کان پر جُوں رینگی ہے نہ وفاقی حکومت نے کوئی اقدام کیا ہے۔ غفلت، لاپروائی اور ایک دوسرے پر الزام تراشی کا مظاہرہ صوبے اور وفاق دونوں کیلئے مضر ہے اور اس کے نتیجہ میں ملک نہ صرف مزید ابتری اور شورش کا شکار ہو سکتا ہے بلکہ خارجی محاذ پر کمائی ہوئی کامیابیوں کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔ ہمیں خبر نہیں کہ سندھ پر گیارہ سال سے حکومت پر قابض پیپلزپارٹی اور وفاق میں موجودہ ریاست مدینہ کی داعی تحریک انصاف ہماری گذارشات کی روشنی میں کوئی پیش رفت کریں گی لیکن ایک پاکستانی ہونے کے ناطے ہماری خواہش ہے کہ خارجی معاملات میں کامیابی کو مستحکم کرنے کیلئے گھر کی بہتری ایک لازمی امر ہے اور پانچوں اکائیوں میں اشتراک، اصولی مفاد اور عوامی بہتری کیلئے باہم عمل ضروری ہے۔
”ہے کوئی جو ہماری بات پر کان دھرے“۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here