کوثر جاوید
بیورو چیف واشنگٹن
پاکستان کی 74 سالہ تاریخ میں آدھا وقت فوجی حکومتوں کا رہا اور آدھا وقت جمہوری قوتوں کا لیکن جمہوری قوتیں بھی فوجیوں کے بل بوتے پر آئیں قائداعظم محمد علی جناح کے ساتھیوں میں سے اکثر مخلص نہیں تھے، قائد اعظم کی وفات کے بعد سکندر مرزا، حسین شہید سہروردی، رانا لیاقت علی خان اور پھر ایوب خان کا دور شروع ہوا۔ سکندر مرزا کے بعد ان کے بیٹے ہمایوں مرزا اور ذوالفقار علی بھٹو کلاس فیلو تھے جب ہمایوں مرزا نے بھٹو کو اپنے والد سکندر مرزا سے متعارف کروایا تو بھٹو کی دوستی سکندر مرزا سے ہوئی، سکندر مرزا نے بھٹو کی ذہانت اور قابلیت کو دیکھتے ہوئے اپنی کابینہ میں شامل کر لیا ،اس وقت بھٹو سب سے ینگ وزیر تھے،سکندر مرزا کا دور ختم ہوا، بھٹو ایوب خان سے مل گئے اور فوجی جرنیل کی صدارت میں اپنی سیاسی تربیت لی، 1968ءمیں ایوب خان کے دور کے خاتمے پر بھٹو نے پیپلزپارٹی کی بنیاد رکھی جس کامنشور اور نعرہ روٹی، کپڑا اور مکان تھا جو پاکستانی عوام کو اب تک نہ مل سکا، بھٹو ایک جادوئی شخصیت کے مالک تھے، پارٹی کو مقبولیت ملی اور 1971 کے عام انتخابات میں مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان میں مجیب الرحمان اور بھٹو کو اکثریت ملی، قانون اور اکثریت کے مطابق شیخ مجیب الرحمن وزیراعظم بننے کیلئے اہل تھے لیکن بھٹو نے ادھر تم ادھر ہم کا نعرہ لگا کر معاملات کو بگاڑ دیا، مغربی پاکستان میں اکثریت کی وجہ سے ذوالفقار علی بھٹو وزیراعظم پاکستان بن گئے۔ غریب عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے بھٹو جاگیردار تھے، ریفارم کےساتھ ساتھ غلطیاں بھی کرتے گئے، 1977ءمیں قبل از وقت انتخابات کروا دیئے، ان کےخلاف تحریک چلی جس میں نو پارٹیوں نے مل کر اتحاد کیا اور ملک گیر تحریک چلائی، حالات مزید خرابی سے بچانے کیلئے جنرل ضیاءنے مارشل لاءلگا دیا اور بھٹو سے ذاتی اختلاف رکھنے لگے، پیپلزپارٹی پر ظلم و ستم کا سلسلہ شروع کر دیا، بھٹو کو قتل کیس میں پھنسا کر پھانسی دلوا دی، ضیاءالحق کی پیاس ٹھنڈی نہ ہو سکی تو پیپلزپارٹی کو ختم کرنے کیلئے ایم کیو ایم کی بنیاد رکھی جو پاکستان میں تباہی کا باعث بنی، جنرل ضیاءالحق نے پیپلزپارٹی کو ختم کرنے کیلئے غیر جماعتی انتخابات کروائے اور اس میں نوازشریف پارٹی نے جنم لیا، نوازشریف گورنر جیلانی کے ذریعے جنرل ضیاءالحق کے قریب ہو گئے اور ان کے بیٹے بن گئے، وزیراعظم جونیجو کا تختہ اُلٹنے میں نوازشریف نے خُوب کردار ادا کیا، ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستانی عوام کو زبان دی، مرزائیوں کو غیر مسلم قرار دیا، پاکستانیوں کو بیرونی ممالک میں محنت مزدوری کرنے کے راستے کھولے، سماجی تنظیموں کو فروغ دیا، تعلیمی اداروں کو سرکاری کر دیا، بڑی بڑی کمپنیوں کو نجی شعبوں میں دےدیا۔ مزدور کے حقوق بحال کئے، خارجہ پالیسی میں پاکستان کا نام روشن کیا اور برابری کی سطح پر دنیا میں دیگر ممالک کےساتھ تعلقات استوار ہونے لگے، جو بھی تاریخ لکھی گئی اس میں پیپلزپارٹی کا نام ایک جمہوری پارٹی اور قربانیاں دینے والی پارٹی کے طور پر لکھا جائےگا۔
ذوالفقار علی بھٹو کے بعد ان کے بیٹوں کو بھی مار دیا گیا، بیٹی بینظیر بھٹو نے پارٹی کی قیادت سنبھالی اور وزیراعظم بن گئیںاور ان کو بھی 27 دسمبر 2007 میں ہلاک کر دیا گیا۔ اب پارٹی آصف علی زرداری اور بلاول کی قیادت میں رواں دواں ہے، پاکستان میں جب پیپلزپارٹی کی حکومت تھی تو جگہ جگہ شہر شہر بینظیر بھٹو کی برسی، دعا اور قرآن خوانی کا اہتمام کیا جاتا، امریکہ میں تقریبات منعقد ہوتیں لیکن گزشتہ چند سالوں سے نہ کوئی دعا کرنے والا نظر آتا ہے اور نہ ہی کوئی تقریب منعقد کرنے والا، پیپلزپارٹی واشنگٹن کے جو لوگ حقیقت میں ورکر تھے وہ بیک فُٹ پر چلے گئے، جن میں ڈاکٹر جاوید منظور، جواد شیرازی، زیدی صاحب، ملک عزیز، علی نواز میمن، منصور قریشی، یہ لوگ بینظیر بھٹو کے میزبان ہوتے تھے، ڈاکٹر جاوید منظور کی رہائش گاہ پر سینکڑوں ورکروں کےساتھ درجنوں تقریبات ہوئیں جن میں ہمیشہ بینظیر بھٹو اور آصف علی زرداری موجود ہوتے، اس کے علاوہ کوئی موقع پر ست ،مفاد پرست ورکر جھوٹ کی بنا پر سینیٹر بھی بن گئے لیکن بے کار بے سود نہ واشنگٹن میں پارٹی کو آرگنائز کر سکے اور نہ ہی تنظیم سازی پر توجہ دی۔ اب چند ماہ سے پیپلزپارٹی کی ختم ہوتی ہوئی ساکھ بچانے کیلئے واشنگٹن میں اچھے اور پڑھے لکھے لوگ دوبارہ آرگنائز کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، ان کےساتھ ساتھ چند عناصر ایسے بھی ہیں جو جعلی صحافیوں اور دانشوروں کی مدد سے خود کو یو ایس اے کا صدر اور چیئرمین بننے کا شوشہ چھوڑ رہے ہیں، یہ شر پسند عناصر دو یا تین ہیں جو ہر شام مختلف مارکیٹوں اور ریسٹورنٹ میں دس دس گھنٹے اپنا وقت ضائع کرتے رہتے ہیں جب ان سے بات کریں تو بھنگیوں اور جرائم پیشہ لوگوں کی طرح جواب دیتے ہیں اور دن رات صدارت اور چیئرمین، نائب صدارت، جنرل سیکرٹری کے عہدے بانٹ رہے ہوتے ہیں ان شر پسند عناصر سے نہ صرف پیپلزپارٹی واشنگٹن حقیقی قیادت پریشان ہے اس کےساتھ ساتھ پاکستانی کمیونٹی میں بے چینی پائی جاتی ہے بجائے اس کے کہ امریکہ کی اندرونی سیاست پر اور پاکستان کے موضوع پر کوشش کی جائے یہ اپنا اور دوسروں کا وقت، پیسہ اور وسائل ضائع کرنے میں مصروف ہیں یہ بھی گوش گزار کرتا چلوں کہ ان شر پسندوں کا پیپلزپارٹی سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں، بلاول بھٹو اور آصف علی زرداری سے گزارش ہے کہ ان جعلی ورکروں کےخلاف کارروائی کی جائے اور پی پی پی کی واشنگٹن میں حقیقی قیادت اور ان کی حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ آئندہ آنے والے دنوں میں پیپلزپارٹی کی کچھ پوزیشن بحال ہونے میں مدد ملے۔
٭٭٭