سیاست کے نرالے کھیل

0
256
جاوید رانا

جاوید رانا، بیوروچیفشکاگو

قارئین کرام! میرا یہ کالم جب آپ کے زیر مطالعہ ہوگا تو سال 2020ءکا آخری سورج غروب ہو رہا ہوگا یا ہو چکا ہوگا، 2021ءکرہ¿ ارض پر دستک رہے رہا ہوگا یا دے چکا ہوگا۔ سال 2020ءنے دنیا کو مجموعی طور پر دکھ اور کرب ہی دیئے۔ Covid-19 کے نام سے موسوم مہلک و موزی وباءنے 8 کروڑ افراد کو نہ صرف متاثر کیا بلکہ لاکھوں جانیں بھی لے گئی۔ تجزیہ کاروں و ماہرین کے مطابق اس وباءکی ہلاکتیں دوسری جنگ عظیم اور گزشتہ صدی میں رونما ہونےوالے سوائن فلو کی ہلاکتوں سے بھی کہیں زیادہ ہوئی ہیں۔ براہ راست نقصانات، علالتوں و اموات سے ہٹ کر اس بلا نے دنیا کے طرز معاشرت، معیشت و روابط کو تبدیل کر کے رکھ دیا ہے جو اپنی جگہ خود ایک نمایاں معاشرتی بدنمائی و تبدیلی ہے۔ سال 2020 سارے عالم کیلئے سکون کی بربادی و سیاسی اور معاشی انحطاط و تبدیلیوں کا مو¿جب ثابت ہوا ہے۔ امریکہ جہاں کرونا کی وباءسے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے وہیں سیاسی تبدیلی کا بھی مظہر بنا ہے۔ ٹرمپ کی شکست اس کی بڑی مثال ہے۔ جبکہ امریکی معیشت پر بھی اس کے شدید اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ حالات تو دیگر ممالک کے بھی شدید متاثر ہوئے ہیں سیاسی طور پر بھی اور معیشت کے حوالے سے بھی۔ بہر حال ہماری خواہش اور دعا ہے کہ 2021ءتمام عالم کیلئے خوشیوں، کامیابیوں اور اس موزی وباءسے نجات کا سال ہو۔
یوں تو ہم سارے سال ہی مختلف عالمی سیاسی، سماجی، معاشی و معاشرتی حالات پر خصوصاً امریکہ، پاکستان و عمومی منظر نامہ پر اپنا نکتہ¿ نظر و تجزیہ اور معروضات پیش کرتے رہے ہیں لیکن پاکستان کے حوالے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہماری عرضداشتیں محض دل کا غُبار نکالنے کا ذریعہ ہیں۔ پاکستان کی اشرافیہ ہو یا عوام الناس، ان کے روئیے اور اعمال صرف اور صرف ”ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق“ کی تصویر ہیں۔ گزشتہ ہفتے کے حوالے سے ہی نظر ڈالیں تو ہمارے مو¿قف کو تقویت ملتی ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان سیاسی محاذ آرائی کا سلسلہ یوں تو حکومت کے آغاز سے ہی جاری ہے لیکن PDM کے قیام کے بعد سے اس میں نفرت و جارح بیان بازی اور دشنام طرازیوں کی شدت نے انتہائی سنگین صورت اختیار کر لی ہے۔ سیاسی رقابتوں کا کھیل تو جمہوری معاشروں میں ایک عمومی شیوہ ہے لیکن مخالفین کا خصوصاً ان حالات میں جب مودی اور اس کی ایجنسی را مسلسل پاکستان کےخلاف سرحدی خلاف ورزیوں اور دہشتگردی کی وارداتوں کے ذریعے پاکستان کےخلاف عمل پیرا ہیں۔ عسکری قیادت کےخلاف نام لے کر زہر اُگلنا کسی بھی طرح وطن دوستی کے زمرے میں نہیں آتا۔ پی ڈی ایم کے جلسوں میں عسکری سربراہ کےخلاف نعرے بازی، الزام تراشی سمیت بعض قوم پرستوں کے عصبیت پر مبنی خطاب پاکستان کی سالمیت کیلئے زہر ہلاہل اور پاکستان دشمنوں کیلئے مہمیز ثابت ہوتے ہیں۔ دکھ تو یہ ہے کہ حکومتی اشرافیہ بھی اپوزیشن کی اس شعلہ فشانی کو ٹھنڈا کرنے کیلئے مذاکرات یا ڈائیلاگ کے برعکس این آر او نہیں دینا کی تکرار کر کے مزید آگ میں اضافہ کرنے میں مصروف ہے۔
جمہوری معاشروں میں سیاسی تنازعات و اختلافات کو سلجھانے کیلئے پارلیمان مناسب ترین فورم ہوتا ہے اور حکومت و اپوزیشن ڈائیلاگ کے ذریعے معاملات نپٹاتے ہیں لیکن پاکستان کی صورتحال اپوزیشن کے وزیراعظم کو سلیکٹڈ کہنے اور وزیراعظم کی کرپٹ اپوزیشن سے ہاتھ بھی نہ ملانے کی ضد نے پارلیمان کو غیر فعال ہی کر دیا ہے۔ موجودہ حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ نظام چلتا نظر نہیں آرہا اور حالات میں مزید کشیدگی ملک کیلئے کسی طور سے مفید نہیں ہو سکتی ہے۔ اس صورتحال میں گزشتہ ہفتے پگاڑا لیگ کے جنرل سیکرٹری اور مشرف دور کے وفاقی وزیر محمد علی دُرانی کی محض ایک دن کے نوٹس پر اجازت حاصل کر کے جیل میں شہباز شریف سے ملاقات اور بعد ازاں چار نکاتی ایجنڈا بیان کرتے ہوئے پارلیمنٹ میں ڈائیلاگ نیز ٹریک ٹو پالیسی پر عمل پذیری کا انکشاف، اس امر کی نشاندہی ہے کہ مقتدر حلقے اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ حکومت اور اپوزیشن کے جھگڑے میں مقتدر حلقوں کےخلاف بیانیئے کو خصوصاً موجودہ سرحدی و داخلی صورتحال میں لگام دی جائے۔ وزیر اعظم کی اس سے قبل آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی سے ملاقات اور داخلی و خارجی صوورتحال پر عزم کا اظہار بھی پیش نظر رہے۔ حالات کی نزاکت پر ہم اپنے گزشتہ کالم سمیت متعدد بار اس بات کا اظہار کر چکے ہیں کہ محاذ آڑائی کی جگہ باہم ڈائیلاگ سے معاملات کو حل کیا جائے۔ اب یہ صورتحال واضح ہو گئی ہے کہ مقتدر حلقے حالات سے سخت برہم ہیں اور نظام کی بہتری کیلئے کچھ نہ کچھ اقدام کرنے کی ضرورت ہے۔ نوازشریف، مریم، فضل الرحمن کے فوج مخالف بیانیئے کو لگام دینے کےساتھ وزیراعظم کو بھی فوج ہمارے ساتھ ہے کے منترے سے رکنا چاہیے۔ حالات پر کنٹرول کے آثار یوں نظر آنے لگے ہیں کہ پیپلزپارٹی ضمنی انتخاب میں حصہ لینے اور استعفوں کے ایشو پر اپنی رائے رکھتی ہے،ن لیگ میں بھی استعفے اور ضمنی انتخاب کے حوالے سے تقسیم نظر آتی ہے۔ یہ امر یقیناً فضل الرحمن، نوازشریف وغیرہ کے مفاد میں نہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ شہباز شریف سے محمد علی دُرانی کی ملاقات کے بعد ان کا بیانیہ اور شہید بی بی کی برسی پر زرداری کا پی ڈی ایم کو اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کا مشورہ اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ ادھر ایم کیو ایم کی جانب سے مردم شماری کے ایشو پر حکومت سے علیحدگی کی دھمکی بھی قابل توجہ ہے کہ ایم کیو ایم نے ہمیشہ موقع اور اشارے پر اپنی سیاست کی ہے۔ شیخ رشید کے اس جملے پر بھی غور کریں کہ فوج میں بہت غصہ ہے لیکن آرمی چیف بہت سمجھدار ہیں اور جمہوریت کے تسلسل پر یقین رکھتے ہیں۔ حالات کا رُخ واضح کر رہا ہے کہ جمہوری نظام تو چلے گا لیکن ملک اور اداروں کےخلاف قوتوں کو انجام تک پہنچایا جائےگا لیکن کیا نوازشریف، مریم، فضل الرحمن باز آئیں گے۔
مریم نواز نے شہید بینظیر کی برسی کے جلسے میں بھی اپنی روش نہیں چھوڑی اور تیر و نشتر برسائے۔ پیپلزپارٹی کو بی بی شہید کی برسی کے جلسے کے حوالے سے یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ اس جلسہ میں شہید بھٹو اور شہید بی بی کو ان لوگوں یا ان کی اولادوں نے خراج عقیدت پیش کیا۔ جو PNA اور IJI کی تحریکوں اور بھٹو دشمن کار فرمائیوں میں تمام حدوں کو پار کرتے رہے تھے۔ سیاست کی یہی ستم ظریفی ہے کہ اغراض و مفاد کیلئے لوگ اپنے تُھوکے ہوئے کو خود ہی چاٹنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ہم کسی کا نام نہیں لیتے لیکن یہ ضرور کہیں گے کہ بھٹو اور بینظیر کو دشنام دینے والے، سیکیورٹی رسک کہنے والے آج نہ صرف ان کے نام کے نعرے لگانے پر مجبور ہیں بلکہ ان کے سیاسی وارثوں کو گلے سے لگا کر ساتھ چلنے کے محتاج بھی ہیں۔
جہاں تک پاکستانی سیاسی منظر نامے کا تعلق ہے تو ن لیگ اور جے یو آئی جیسی جماعتیں جن کا کوئی اسٹیک نہیں خوار ہی رہیں گی۔ پی ڈی ایم کی کہانی ادھوری ہی رہے گی اور ملک دشمن بیانیئے کے حامل محرکین کو شٹ اپ پر مجبور ہونا ہوگا۔ 2021ءکے حوالے سے مرزا غالب کے اس مصرعفے پر امید رکھیں”اک برہمن نے کہا ہے یہ سال اچھا ہے“ اللہ رب العزت کرونا کی موذی وباءسے محفوظ فرمائے۔ پاکستان کو سلامتی، خوشحالی اور دشمن کی ناپاک سازشوں و حرکات سے محفوظ فرمائے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here