جاوید رانا، بیوروچیفشکاگو
سیاست کے کھیل جمہوریت کے نام پر طرح طرح کے موڑ لیتے نظر آتے ہیں۔ اصولوں اور سچائی کو پیچھے چھوڑتے ہوئے مفادات کے حصول اور کامیابی کیلئے ہر وہ اقدام جائز قرار دیا جاتا ہے جو اپنے فائدے اور مخالف کو شکست دینے کو یقینی بنائے۔ پاکستان میں اس حوالے سے جائزہ لیں تو یہ کھیل حالیہ دور یا ماضی قریب میں ہی نہیں بلکہ پاکستانی سیاست کے اولین ادوار سے ہی کھیلا جا رہا ہے۔ قائداعظم کی رحلت کے بعد سے مادر ملت فاطمہ جناح کی ایوب خان سے سیاسی شکست، بعد ازاں پی این اے کی تحریک سے شہید بھٹو کی برطرفی اور عدالتی قتل اور ضیاءالحق کے بعد IJI کی آڑ میں یہ سیاسی کھیل تو اصل مقتدرین کھلاتے رہے اور اپنے مہرے آگے بڑھاتے رہے تاہم بعد ازاں یہ پالتو پیادے خود کو اس قدر مضبوط سمجھنے لگے کہ وہ اصل مقتدرین سے ہی پنگا لے کر خود کو اصل طاقت سمجھنے لگے اور ہر جائز ناجائز اقدام اور مفاداتی حرکات پر اُتر آئے جو ملک و عوام کیلئے نہیں بلکہ خود ان کیلئے فائدہ کا باعث ہو، کرپشن، عصبیت، فرقہ واریت کا جنون اس قدر بڑھ چکا ہے کہ اس سے سارا معاشرہ آلودہ ہو چکا ہے۔
جمہوری نظام میں عوام کے ووٹوں سے منتخب نمائندوں کے مرکزی و صوبائی ایوانوں سے مساویانہ یا جماعتی نمائندگان کی شرح کے حساب سے منتخب یا بعض ممالک میں نامزدگی کے ذریعے سینیٹ / ایوان بالا کا قیام عمل میں آتا ہے جو جمہوری نظام میں قانون سازی کا اعلیٰ ترین ادارہ شمار کیا جاتا ہے اور اس کی توثیق و منظوری کے بغیر کوئی نیا قانون یا آئینی ترمیم ظہور میں آنے حتیٰ کہ کسی آئینی تنازعہ کا فیصلہ بھی ممکن نہیں ہوتا۔ سینیٹر اپنی اہمیت و افادیت کے باعث ہر شعبہ زندگی کے افراد کی نمائندگی کےساتھ آئین، قانون، معیشت، معاشرت و علوم کے ماہرین کا نمائندہ فورم ہوتا ہے اور اس کے فیصلے ملک و قوم کے مفاد و مستقبل اور آئین و قانون کے تحفظ کی نشاندہی کرتے ہیں۔ حال ہی میں امریکی سینیٹ میں سابق صدر امریکہ ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف کیپیٹل ہل پر مواخذے کی کارروائی دو تہائی اکثریت کی رائے نہ ہونے کے باعث امریکی آئین کی متعلقہ کلاز کے تحفظ کی مثال ہے کہ حکومت خواہش اور حقیقت کے باوجود ٹرمپ کی نا اہلی ممکن نہ بنا سکی۔ اب ذرا پاکستان کی سینیٹ پر نظر ڈالیں یہ ادارہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کیلئے پیدا کا ذریعہ بن چکا ہے۔ چھانگا مانگا سے بولیاں لگا کر آزاد اور مخالف جماعتوں کے منتخب نمائندوں کو خریدنے کا یہ کاروبار شروع ہوا او اب اس قدر وسعت پا چکا ہے کہ اس نے ایک منڈی کی شکل اختیار کر لی ہے اور اس کاروبار میں ملک کی تقریباً ساری اہم سیاسی جماعتیں ملوث ہیں۔
نواز لیگ اور پیپلزپارٹی میں سینیٹ میں برتری حاصل کرنے کے اس کھیل میں 2018ءمیں کھلاڑیوں کے خیبر پختونخواہ کے صوبائی اراکین کے بکنے کے حقائق سامنے آنے پر کپتان نے ان کےخلاف کارروائی کر کے انہی پارٹی سے نکال تو دیا تھا لیکن بعد میں چیئرمین سینیٹ کےخلاف اپوزیشن کی عدم اعتماد کی تحریک میں 14 افراد کے منحرف ہونے کے تماشے میں تبدیلی حکومت کی جانب ہی اُنگلیاں اُٹھیں۔ اب صورتحال یہ ہے کہ 3 مارچ کو ہونےوالے انتخابات کے حوالے سے وزیراعظم جہاں اوپن بیلیٹ اور Raise آف ہینڈز کے ذریعے ووٹنگ کے ذریعے عدالت عظمیٰ میں ریفرنس، قومی اسمبلی میں ترمیم لانے اور مشروط صدارتی آرڈیننس کی اُلجھنوں میں متحرک رہے وہیں انہوں نے یہ انکشاف بھی کر دیا کہ ووٹرز خریدنے کا ریٹ 70 کروڑ فی ووٹر تک پہنچ گیا ہے۔ دوسری جانب ارشد شریف نے ایک ویڈیو وائرل کر دی جس میں 2018 میں پختونخواہ کے اراکین اسمبلی کی خریداری دکھائی گئی ہے۔ ایک متاثرہ رکن اسمبلی کا بیان کہ رقم کی تقسیم میں اس وقت کے وزیراعلیٰ، موجودہ وزیر دفاع اور موجودہ اسپیکر قومی اسمبلی محرکین میں تھے، حکومت کیلئے ایک مسئلہ بن کر سامنے آگیا ہے اور مخالفین کے منفی پروپیگنڈے اور الزام تراشی کا بہانہ بن گیا ہے۔ اگرچہ وزیراعظم نے اس عقدہ کو کھولنے کیلئے شیریں مزاری، فواد چودھری اور شہزاد اکبر پر مشتمل کمیٹی بنا دی ہے اپوزیشن جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ کر رہی ہے اور اہمیشہ کی طرح حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا سلسلہ جاری ہے۔
بہرحال یہ بات واضح ہے کہ دودھ کا دُھلا کوئی بھی نہیں ہے۔ سینیٹ کو ایک بزنس کلب کی حیثیت سمجھا جاتا ہے تاکہ اپنی اکثریت ثابت کرنے کےساتھ نہ صرف ووٹرز کو مالی فوائد سے نوازا جائے بلکہ اپنا مالی مستقبل بھی مستحکم کیا جائے۔ لکھنے کو بہت کچھ ہے لیکن طوالت سے بچ کر صرف اتنا عرض کرتے چلیں کہ برتری کے حصول اور درپردہ رابطوں کے اس کھیل میں اصولوں اور سچائی کے حامل وزیراعظم کو اپنے گھر کے چراغوں سے ہی تاریکی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ پیپلزپارٹی اور زرداری بہت چالاکی سے اپنے پتے کھیل رہے ہیں۔ یوسف رضا گیلانی کو اسلام آباد سے سینیٹ کا امیدوار لانا بلا وجہ نہیں ہے۔ جہانگیر ترین سے گیلانی کی رشتہ داری، پیر پگاڑا سے خاندانی قرابت داری اور جنوبی پنجاب میں برادریوں مثلاً لغاریوں، دریشکوں، کھروں، گیلانیوں اور مخدوموں کے مراسم اور اس علاقے کا سیاسی مزاج بہت اہم ہے۔ خرم لغاری کا رویہ اور اقدام بھی بے معنی نہیں۔ کپتان کے سینیٹ کے حوالے سے گیارہ رکنی پارلیمانی بورڈ کی نامزدگیوں سے بلوچستان، سندھ اور پختونخواہ میں کھلاڑیوں کے احتجاج پر اگرچہ کپتان نے فوری اقدام کیا ہے لیکن صورتحال گنجلک ہے۔ سونے پر سہاگہ اپوزیشن کی سینیٹ کے حوالے سے مشترکہ حکمت عملی اس خدشے کو تقویت دیتی ہے کہ خرید و فروخت کی منڈی ایک اور سیاسی بو العجبی کا مظاہرہ ہوگی۔ ایماندار اور سچے کپتان کی کامیابی کیلئے ہم دعا ہی کر سکتے ہیں بقول غالب!
دیکھیئے پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض
اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے
٭٭٭