رعنا کوثر
انسان کو اشرف المخلوقات، صرف اسی لیے نہیں کہا گیا کے وہ تمام مخلوقات سے بہتر سوچتے ہیں۔بلکہ وہ جوسوچتے ہیں اس پر عمل بھی کرتے ہیں۔اچھا سوچتے ہیں تو اس پر عمل کرنے لگتے ہیںاور اگر برا سوچتے ہیں تو اس پر عمل کرنے لگتے ہیں۔اگر انسانیت کے لحاظ سے دیکھا جائے تو دنیا میں سب سے بہتر عمل ایک انسان کی دوسرے انسان کے لیے ہمدردی اور محبت ہے۔اسی ہمدردی کے تحت وہ کسی کی مدد کرتا ہے۔اور کسی کی مدد کرنا بہت خوبصورت عمل ہے کسی کی مدد کرنے سے جہاں ہم کو خود خوشی ملتی ہے۔وہیں دوسرا انسان بس کی مدد کی گئی ہے اتنا خوش ہوتا ہے اتنی ذہنی آسودگی اس کو ملتی ہے کے یہ بات وہی سمجھ سکتا ہے جس کی مدد کی گئی ہے۔
ویسے تو ہم سب اس بات پر یقین رکھتے ہیں کے اپنی مدد آپ ایک بہترین زندگی کا سب سے بہتر فارمولا ہے کم سے کم کسی کی مدد لینے والا آدمی خود مختار کہلاتا ہے۔اور لوگوں کی نظریں عزت سے دیکھا جاتا ہے۔مگر کیا کبھی ایسا ہوا ہے کے کوئی بھی ایسا انسان ہماری نظر سے گزرا ہو جس نے کبھی کسی کی مدد ہی نہ لی ہو۔ہم میں سے بے شمار ایسے اچھے انسان موجود ہیں جو ہر وقت کسی نہ کسی کی مدد کرنے میں بہت آگے ہوتے ہیں۔ہر طرح کے حالات میں لوگ ان کے پاس جاتے ہیں یا تو ان کے پاس مالی وسائل ہوتے ہیں یا اثرورسوخ ہوتے ہیںمگر ایسے لوگ بھی کہیں نہ کہیں کسی کی مدد کے محتاج ہوتے ہیں۔ہم کبھی بھی یہ نہیں کہہ سکتے کے کسی نہ ہماری کبھی بھی کسی بھی سلسلے میں مدد ہی نہ کی ہو۔کبھی کوئی چھوٹا کام اٹک جاتا ہے تو کبھی بڑا کام۔بہت سارے لوگ ہر کام پیسہ دے کر کرا لیتے ہیں وہ کسی کی ذرا بھی مدد یا احسان کے قائل نہیں ہوتے۔مگر اس کے باوجود کچھ معاملات میں پیسہ بھی کام نہیں آتا صرف کسی انسان کی مدد ہی ان کا وہ معاملہ یا مسئلہ حل کرتی ہے۔
یوں مدد آپ ایسا جذبہ ہے جو ہر انسان کے دل میں ڈالا گیا ہے اور کہیں نہ کہیں ہر انسان کسی کی مدد کا محتاج بھی بنا دیا گیا ہے تاکے وہ بڑائی کے زعم میں نہ رہے۔اب اسی مدد کے جذبے کو ہم نے خود غرضی کے خانے میں فٹ کر دیا ہ۔مثلاً ہم کسی کی مدد اسی وقت کرتے ہیں جب اس سے کوئی کام لینا ہوتا ہے یا پھر کسی کی مدد صرف اس لیے کرتے ہیں کے وہ ہمارا احسان مند ہو جائے اور ہم اس کو اپنا غلام بنا کر رکھیں۔
کبھی ایسی مدد کے جذبے کو ہم نے دوسروں کی ذات سے اتنا وابستہ کر دیا ہوتا ہے کے ہم چاہتے ہیں مدد کرنے کے بعد وہ شخص ہمیشہ ہمارے ساتھ اچھا سلوک کرے ہمیں عزت دے ہمارا پورا خیال رکھے۔اور جب وہ ہماری امیدوں پر پورا نہیں اترتا۔اور ہم کو کبھی اس مدد کے بدلے نقصان بھی اٹھانا پڑتا ہے تو ہم اتنے دل برداشتہ ہوتے ہیں کے اس دوسروں کی مدد کرنا ہی چھوڑ دیتے ہیں۔کسی کی بھی مدد کرنے میں غرض شامل نہ رکھیں،کسی کی مدد کرتے ہوئے بہت جذباتی نہ ہوں صرف فرض سمجھ کر کریں۔
اندھا دھند مدد بھی نہ کریں،اگر کوئی آپ کو نقصان پہنچا رہا ہو یا جھوٹ بول کر مدد طلب کر رہا ہو۔تو تھوڑا سوچ لیں تاکے کل آپ یہ سوچ کر لوگوں کی مدد کرنا نہ چھوڑیں۔کے میں ہی ہمیشہ بے وقوف بنتا ہوں۔اور جب مدد کرنے کے بعد غرور سر اٹھانے لگے تو سوچ لیں صرف آپ ہی جذبہ ہمدردی اور محبت سے نوازے نہیں گئے ہیں۔بلکہ بے شمار لوگ اس دنیا میں لوگوں کی مدد کرتے رہے اور اپنے نامہ اعمال میں نیکیاں اور دعائیں لے کراللہ کے پاس چلے گئے۔بے شمار لوگ ابھی بھی دریا دلی سے دوسروں کی مدد کر رہے ہیں۔اور خوش ہیں آگے بھی بے شمار لوگ آتے رہیں گے جو لوگوں کی مدد کرتے رہیں گے۔ایک دوسرے کی مدد کے بغیر دنیا میں رہنا مشکل ہے۔اگر آپ کے اندر یہ جذبہ ہے تو آپ ایک ایسے انسان ہیں جسے اللہ نے اپنے کرم سے نوازا ہوا ہے اور آپ خوش قسمت ہیں۔
٭٭٭