یہ وہ سحر تو نہیں!!!

0
255
جاوید رانا

جاوید رانا، بیوروچیفشکاگو

ماہ شعبان المعظم کی پندرہویں بابرکت و خیر والی شب فیوض و برکات کے حصول کیلئے ساری اُمت مسلمہ نے عبادات و ریاضت میں گزاری، فرزاندان توحید نے اس مبارک شب میں جہاں رب ذوالجلال سے اپنے گناہوں، خطاﺅں کی معافی کی خواستگاری کی وہیں روزی، رزق میں خیر و برکت، زندگی میں آسانی اور اپنے نامہ¿ اعمال کی بہتری کیلئے بھی اللہ رب العزت سے گڑ گڑا کر دعائیں کیں، حدیث قُدسی ہے کہ”اللھم بارک لنا فی رجب و شعبان و بلغنارمضان“۔ حقیقت یہ ہے کہ شعبان کی پندرہویں شب جہاں رمضان المبارک کی مبارک ساعتوں کی خیر و برکت کے حصول کی تیاری کا آغاز ہے، وہیں یہ بندگان خدا کی زندگی و موت، روزی و رزق اور اعمال کے تعین و جزاءو سزا کے فیصلوں کا بھی روز ہے۔ باالفاظ دیگر یہ پروردگار عالم کی جانب سے بندوں کے سالانہ بجٹ و فیصلوں کا لمحہ ہے۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ پاک آپ سب کی عبادتوں، ریاضتوں، دعاﺅں، توبہ و استغفار کو قبول فرمائے اور ماہ رمضان المبارک کی برکتوں، فرائض کی ادائیگی نیز تمام سال صحت، تندرستی و رزق میں برکت سے نوازے، ہر طرح کی محرومی و محتاجی سے محفوظ رکھے۔ آمین۔ شعبان المعظم کے بعد رمضان المبارک کی مبارکباد ساعتوں کے آغاز میں محض 12 دن باقی ہیں۔ امت مسلمہ کیلئے یہ ماہ مبارک انتہائی اہمیت و تقدس کا حامل ہے جب ہر مسلم خاندان، ہر گھر، اس ماہ کے حوالے سے دین کے اہم فرض روزے کا اہتمام کرتا ہے، نہ صرف اس ماہ کے حوالے سے بلکہ فرض کی ادائیگی پر شکر کے ناطے عید الفطر کی مسرتوں کیلئے بھی تیاریاں کرتا ہے۔ دنیا بھر میں لوگ اپنے عقائد و مذہبی تہواروں کی مسرتیں سمیٹتے ہیں تو اس معاشرے کے ریاستی، حکومتی و کاروباری حلقے اپنے عوام کو سہولتیں، آسانیاں اور رعایتیں فراہم کرتے ہیں لیکن وطن عزیز پاکستان وہ ملک ہے جہاں ایسے مواقع پر عوام کو سہولیات یا رعایتوں کی جگہ ان کی کھال اُتارنے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ مہنگائی و قلت کا طوفان برپا ہوتا ہے۔ تجارتی و کاروباری طبقہ اس کوشش میں رہتا ہے کہ سال بھر کیلئے اپنی تجوریاں بھر لے اور انتظامی و حکومتی ارباب حل و عقد خاموشی و بے بسی کی تصویر بن کر محض احکامات و دعوﺅں تک محدود رہتے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ اس ماہ مبارک کی فضیلتیں اور مسرتیں عام آدمی کیلئے کڑی آزمائش بن جاتی ہیں ہاں البتہ وہ طبقات بے پرواہ رہتے ہیں جن کیلئے مال و زر کی کوئی کمی نہیں، خواہ وہ کسی بھی طرح سے آیا ہو۔ مہنگائی کے عفریت کا یہ معاملہ محض رمضان المبارک تک ہی نہیں بلکہ یہ سلسلہ کئی دہائیوں پر محیط ہے جس کے نتیجے میں پاکستان میں متوسط طبقہ تقریباً ختم ہو چکا ہے۔ مہنگائی کے اس جن کو بڑا کرنے میں جہاں کاروباری و تجارتی طبقے کی من مانیاں اور مفاداتی ہتھکنڈوں کا ہاتھ ہے وہیں ملک کی بیورو کریسی، حکمرانوں اور سیاستدانوں نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ ماضی کی حکومتوں کی کرپشن، لُوٹ مار اور عوام سے اغماز رکھنے کے باعث عوام نے نجات کیلئے موجودہ تبدیلی حکومت کو اپنی مشکلات سے نکلنے کیلئے اعتبار کرتے ہوئے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا تھا اور امید کی تھی کہ عمران خان جیسے ایماندار، کھرے اور عوامی ہمدردی کے حامل رہنما کے وسیلے سے ان کی زندگی کی مشکلات کم ہونگی لیکن ”ایں خیال است و محال استِ جنوں“
صورتحال اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ عام آدمی دو وقت کی روٹی کے حصول کیلئے پُر یقین نہیں ہے۔
آٹے، چینی، دالوں، سبزی جیسی بنیادی اشیاءبھی غریب کی دسترس سے باہر ہو چکی ہیں۔ وزیراعظم کے عوام کی حالت بہتر بنانے کے متعدد پروگراموں پر عملدرآمد کے باوجود بھی حالات مسلسل بگڑتے ہی چلے جا رہے ہیں۔ ہمیں کپتان کی نیت اور عزم پر کوئی شک نہیں اور نہ ہی عوامی بہبود کے اقدامات پر کوئی شبہ ہے لیکن اکیلا چنا بھاڑ نہیں پھوڑتا، کے مصداق محض حکومت اکیلے ہی ان مشکلات پر قابو نہیں پا سکتی۔ اس کیلئے حکومت کی انتظامی مشینری کا مثبت اور بے لوث عمل اور اقدام بہت ضروری ہے جو وقت کےساتھ نہ صرف معدوم ہو چکا ہے بلکہ مفاداتی و لالچی طرز عمل میں تبدیل ہو چکا ہے۔ بیورو کریٹس ہوںِ ٹیکنو کریٹس ہوں یا دیگر عمال و اہلکار، صرف وہ لائحہ و عمل و پالیسیاں لاتے ہیں جو ان کے یا ان کے متعلقہ اداروں، یاروں یا رشتہ داروں کے مفاد میں ہوںَ عام آدمی بھاڑ میں جائے، انہیں پرواہ نہیں۔
خود غرضی، لالچ، بے اصولی، بد نظمی اور بے ایمانی کا یہ زہر صرف چند طبقوں، شعبوں اور اداروں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ ہر سطح ہر شعبہ میں سیاست سے لے کر تعلیم و ادب و ثقافت تک ہر جگہ قابل فروخت کا بورڈ ماتھے پر لگا ہوا ہے، کوئی اصول ہے نہ ضابطہ، دیانت اور امانت کا تصور صرف آئین کے آرٹیکل 6 تک رہ گیا ہے۔ بزرگوں کا ایک قول ہے، طوائف کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں لیکن میرے وطن میں جو حال ہے اس میں کہیں بھی کوئی اصول ضابطے اور معیار نظر نہیں آتے۔ ہم نے وہ زمانہ بھی دیکھا ہے جب بیورو کریسی اور عدلیہ کے ارکان اصولوں پر کوئی سمجھوتہ کرنے پر راضی نہ ہوتے تھے، قانون و ضوابط کے مطابق عمل اور فیصلے کرتے تھے، اپنی علمی قابلیت و مرتبہ کی عزت و لاج کا تحفظ کرتے تھے، اب صورتحال یہ ہے کہ ان شعبوں میں اعلیٰ ترین اہلیت و ڈگریاں رکھنے والے بھی حالات و مفاد کے پیش نظر فیصلہ سازی و عمل کرتے ہیں۔ تعلیم کا معیار بھی طبقات میں تقسیم ہو کر اب منقسم نسلیں پیدا کر رہا ہے۔ پیلے یا ٹاٹ والے اسکول کا طالبعلم خواہ کتنا ہی قابل کیوں نہ ہو چپڑاسی اور نائب قاصد کی نوکری کیلئے بھی دھکے کھاتا ہے۔ مہنگی فیس کے اسکول کا پڑھا ہوا لاڈلا ہر نوکری ہر پیشہ کیلئے موزوں ہوتا ہے خواہ وہ اس قابل ہو یا نا ہو، وجہ یہ ہے کہ اس کی پُشت پر دولت اور اثر و رسوخ کار فرما ہوتے ہیں۔ غرض کس کس شعبے کی بات کریں یہاں تو سارے کا سارا نظام ہی تلپٹ نظر آتا ہے۔
موجودہ حکمران اس ملک کے عوام کیلئے اندھیرے میں روشنی کی کرن بن کر سامنے آئے تھے اور یہ سمجھا جا رہا تھا کہ غربت، مشکلات اور مسائل کے کُچلے ہوئے عوام کو سکون اور خوشحالی کی راہ نظر آئے گی لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ“، با اصول اور ایماندار وزیراعظم کی راہ میں مسترد شدہ مخالفین کے علاوہ خود اس کی اپنی صفوں میں موجود مفاد پرست مافیا کے ایجنٹ بھی روڑے بن کر اٹک رہے ہیں۔ ندیم بابر جیسے اور بھی پتھر ابھی باقی ہیں جنہیں نکال پھینکنا بہت ضروری ہے، بیورو کریسی اور دیگر مافیاز کو بھی جھٹکنا ہوگا تب ہی غریب عوام کو معاشی و معاشرتی اُلجھنوں سے نجات مل سکے گی۔
رمضان سے پہلے ہی گرانی کا طوفان حکومت کیلئے کڑا امتحان ہے اور اس سے عہدہ برآ ہونے کا راستہ صرف کڑی نگرانی اور بروقت اقدامات کرنا ہے، خصوصاً کرونا کی شدید صورتحال میں یہ امر اور مشکل نظر آتا ہے جبکہ ہمارے عوام خصوصاً سیاسی خود غرض رہنما اپنی اغراض کے باعث مطلوبہ احتیاط اور تدابیر پر عمل کرنے پر قطعی سنجیدہ نظر نہیں آتے۔ جماعت اسلامی کی کراچی میں ریلی اور پنڈی میں جلسہ اس کی واضح مثال ہیں۔ کیا کپتان اور ان کی ٹیم مسائل و مشکلات میں گھرے عوام کی دادرسی اور تحفظ کیلئے کچھ کر سکے گی۔ عوام تو اس قدر کُچلے جا چکے ہیں کہ نجات کی راہ نہ ملنے پر وہ نظام و مملکت کےخلاف اُٹھ کھڑے ہوں، اس صورتحال کے نتائج یقیناً بھیانک ہو سکتے ہیں بقول فیض احمد فیض!
یہ داغ داغ اُجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here