پاکستان سے ایک ڈاکٹر صاحب اپنی اہلیہ کا کینسر کا علاج کروانے کی غرض سے یہاں آئے ہوئے ہیں، یہ ایک ایسے واقعے کے چشم دید گواہ بھی ہے جس کا میں ذکر کرنا مناسب نہیں سمجھتا کیونکہ جس پر مٹی پڑ چکی ہے اس مردے کو دوبارہ اکھاڑنا مناسب نہیں۔ پاکستان کی سیاست میں دلچسپی رکھتے ہیں مگر جذباتی بالکل بھی نہیں ہے۔ ویک اینڈ پر بات چیت کرتے ہوئے اچانک ڈاکٹر صاحب نے مجھ سے سوال پوچھ لیا کے میڈیا یا تو عمران خان کا بہت زیادہ حمایتی بن جاتا ہے یا پھر بہت زیادہ مخالفت پر اتر آتا ہے، اس کی کیا وجہ ہے آپ کو سمجھ آتی ہے۔ میں نے کہا ڈاکٹر صاحب اگر سمجھ آرہی ہوتی تو پاکستان ہی نہ رک جاتا۔ آپ بتائیے کہ آپ کو کیا وجہ سمجھ آتی ہے، میں نے جان بوجھ کر یہ سوال ان سے پوچھا کہ وہ اپنا اظہار خیال کریں۔انہوں نے کہا کہ مجھے جو سمجھ آتی ہے اس کے مطابق عمران خان کے قول و فعل میں تضاد ہی بنیادی وجہ ہے۔ مگر سب لوگ کہتے ہیں کہ وہ ہے ایماندار۔ آپ کیا سمجھتے ہیں؟ میں نے پھر درگزر کرنا مناسب سمجھا کیونکہ اس وقت میں کسی طور پر سیاسی بات چیت یا بحث کرنے کے موڈ میں نہیں تھا۔ خیر ڈاکٹر صاحب نے کسی نہ کسی طرح مجھے گھیر کر پٹری سے اتارنے پر کامیاب ہو ہی گئے۔ میں نے کہا کہ بات صرف عمران خان کی نہی پاکستان کی تاریخ کئی سیاستدانوں جرنیلوں اور بیوروکریٹوں کے دوسرے لوگوں سے بھرا پڑا ہے۔ ان کا ایک ہاتھ ایمانداری دکھاتا ہے مگر دوسرا ہاتھ بے ایمانی سے کھاتا ہے۔ یہ دن کو ایمانداری سے گھومتے ہیں اور رات کو بے ایمانی سے مال اکٹھا کرنے کے راستے تلاش کرتے ہیںلیکن خان صاحب ان سب پر بازی اس لئے لے گئے کہ اگر آپ یہ فیصلہ ہی دیکھیں کہ جس میں بھارت سے چینی درآمد کرنے کا فیصلہ بھی عمران خان صاحب کہتے ہیں اور پھر اس کو مسترد بھی عمران خان کرتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے حیرت سے کہا کہ لیکن وہ تو وزیراعظم ہے۔ میں نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب یہ کنفیوڑن حکومتی پارٹی نے خود ہی دور کر دیں کہ خان صاحب ایک نہیں بلکہ دو دو یا چار چار ہیں۔ جس عمران خان نے چینی کی درآمد کی اجازت دی وہ وزیراعظم عمران خان نہیں تھا بلکہ وزیر کامرس تھا۔ جس عمران خان نے چینی درآمد کرنے کی تجویز مسترد کی وہ وزیراعظم تھا۔ یہ وضاحت کوئی ہمارے خود ساختہ نہیں بلکہ تمام حکومتی ترجمان یہی رام لیلہ سناتے رہے۔ میں نے ذاتی طور پر جن دو حکومتی عہدیداروں کو سنا ان میں ایک فواد چوہدری اور دوسرے ایک معروف اینکر کے بیٹے ہیں۔ دونوں اس بے وقوفانہ بیانیہ کا دفاع بڑی دیدہ دلیری سے کرتے نظر آئے کہ جس نے درآمد کرنے کی اجازت دی وہ اور ہے اور جس میں مسترد کی وہ اور شخص ہے۔ بات یہ نہیں ہوتی کہ ہم ترقی پذیر اور غریب ملک ہے اور امریکہ ترقی یافتہ اور امیر ملک ہے۔ عام آدمی ہو یا حکومت، ان کے کچھ معیار ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔مثلا غریب ہوں اور آپ امیر ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ مجھے جھوٹ بولنے کی اجازت ہے اور آپ کو نہیں۔پاکستان ترقی پذیر ملک ہے اور امریکہ ترقی یافتہ ملک ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم اپنی قومی پالیسیوں میں بیوقوفانہ رویہ اپنائے رکھیں۔غریب کے گھر میں دال بنے یا امیر کے گھر میں مٹن، مقصد دونوں کا ایک ہے یعنی پیٹ بھرنا۔ہم ایسے بے وقوف ہو کو کبھی بھی حکمران اس لیے تسلیم نہیں کر سکتے کہ وہ ایک ترقی پذیر اور مسائل سے گھرے ملک کے سربراہان ہیں۔اگر ایسی ہی بے وقوفی امریکہ یا کسی بھی ترقی یافتہ ملک میں ان کا سربراہ کرتا تو یقینا اب تک وہ اپنے گھر کو پہنچایا جاچکا ہوتا۔
آئے روز اس طرح کی لاپروائی کیا اس کے لئے نظر انداز کردی جائیں کہ پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے۔
ہمارے وسائل جتنے ہیں ہمیں ان میں رہ کر عقل مندی سے چلنا ہے۔ترقی یافتہ ممالک کے جتنے مسائل ہیں وہ ان میں رہ کر اپنی عقلمندی سے چلتے ہیں۔افسوس تو یہ ہے کہ پاکستان میں دیگر سیاسی جماعتوں، فوجی جرنیلوں اور بیوروکریٹوں سمیت ججوں کے دوہرے روپ آشکار ہوتے ہی وہ منظر سے غائب ہو جاتے ہیں مگر یہ وہ لوگ ہیں جو بڑی ہٹ دھرمی سے اپنے دوہرے روپ کا دفاع کرتے ہیں۔
٭٭٭