کورونا کی وبا میں شدت آنے پر ایک ہفتے سے روزانہ جاں بحق افراد کی تعداد ایک سو سے زائد رپورٹ ہو رہی ہے۔ ہفتہ کے روز ملک بھر میں کورونا کے نئے کیسوں کی تعداد 5139رہی جو مجموعی ٹیسٹوں کا 10.47فیصد ہے۔ گزشتہ برس فروری سے اب تک کورونا کے 7لاکھ پندرہ ہزار نو سو اڑسٹھ کیس رپورٹ ہوئے ہیں۔کورونا کی تیسری لہر پنجاب میں زیادہ خطرناک ثابت ہو رہی ہے۔ ڈاکٹر،استاد، شاعر اور افسران سمیت شہریوں کی خاصی تعداد کورونا وائرس کا شکار ہو رہی ہے۔ محکمہ سپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر نے لاہور سمیت 7اضلاع کے ہسپتالوں کے آﺅٹ ڈور 10روز کے لئے بند کر دیے ہیں۔حکومت کی جانب سے 70سال سے زاید افراد کے لئے خصوصی سنگل ڈوز ویکسین لگانے کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ رمضان المبارک کی آمد سے قبل عبادت گاہوں کے لئے ایس او پیز جاری کر دیے گئے ہیں جن کے تحت 60سال سے زاید عمر کے افراد مساجد کی بجائے گھر میں عبادت کریں گے ،ماسک کی پابندی کی جائے گی،مساجد انتظامیہ ذمہ دار ہو گی کہ نمازیوں کے درمیان 3فٹ کا فاصلہ رکھے۔ کورونا کے مریضوں کی تعداد اس وبا کے انسداد کی کوششوں اور ہسپتالوں کی گنجائش سے ساری صورت حال گھمبیر ہو جاتی ہے۔ اس لئے وزیر اعظم خود اعتراف کر رہے ہیں کہ سرکاری ہسپتالوں کے موجودہ نظام کو ٹھیک کرنا بہت مشکل ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کے خیال میں پہلے سے موجود ہسپتالوں کو ٹھیک کرنے کی نسبت نئے ہسپتال چلانا زیادہ آسان ہے۔ این سی او سی کے مطابق گذشتہ پانچ روز کے اعداد و شمار دیکھے جائیں تو منگل کو 102، بدھ کو 98 اور جمعرات کو 105 افراد۔جمعہ کو 97 اور ہفتہ کو 100کی موت ہوئی ہے۔ پاکستان میں اس وقت 50 سال سے زائد عمر کے افراد کو ویکسین لگانے کا عمل جاری ہے مگر تاحال اس میں تیزی نہیں لائی جا سکی ہے۔ وفاقی وزیر برائے ترقیات و منصو بہ بندی اسد عمر کا کہنا ہے کہ عید کے بعد تمام شہریوں کو کورونا ویکسین لگانے کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے۔ اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اسد عمر نے پاکستان میں کوروناکی تیسری لہر کے حوالے سے آئندہ پانچ سے چھ ہفتوں کو اہم قرار دیا ہے۔اسد عمر کا کہنا ہے کہ عید کے بعد پاکستان یومیہ ایک لاکھ 25 ہزار سے زائد افراد کو ویکسین لگانے کے قابل ہو گااگر ملک میں کورونا وائرس کے کیسز کی بات کی جائے تو اب تک سات لاکھ سے زائد افراد میں وائرس کی تصدیق ہو چکی ہے۔ اس سے قبل بدھ کو کوروناکیسز کی تعداد 5329 تھی جو رواں برس سب سے زیادہ تعداد تھی۔اب تک پاکستان میں کورونا وائرس سے سب سے زیادہ اموات صوبہ پنجاب میں ہوئی ہیں جہاں مرنے والے افراد کی کل تعداد 6851 ہے۔ پنجاب کے بعد سب سے زیادہ اموات صوبہ سندھ میں 4521 اور خیبر پختونخوا میں 2553 افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ ادارہ شماریات کے مطابق مالی سال 2018 کے اختتام تک ہسپتالوں میں مجموعی طور پر 132227 بستر موجود تھے جو ملک بھر کے 1279 سرکاری ہسپتالوں اور 5671 ڈسپنسریوں میںموجود ہیں۔آبادی کے حجم کے حساب سے صوبہ پنجاب کے 388 ہسپتالوں میں بستروں کی کل تعداد 60191 ہے۔ اس کے بعد صوبہ سندھ میں 39564 بستر، صوبہ خیبر پختونخوا میں 22154، صوبہ بلوچستان میں 7747 اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں 2571 بستر میسر ہیںتاہم یہ تمام بستر کورونا کے مریضوں کے لیے مختص نہیں کیے جا سکتے، اسی لئے لاہور کے ایکسپو سنٹر اور دیگر شہروں میں الگ سے ایسے مراکز بنائے گئے جہاں پہلے پرحلے میں کورونا کے مریض رکھے گئے۔ پاکستان کے اقتصادی سروے کے مطابق مالی سال 2017 کے اختتام تک ملک میں ہر 1580 افراد کو ہسپتال کا ایک بستر میسر تھا۔پاکستان میں اوسطاً ہر 1580 مریضوں کے لیے ایک بستر موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کا سب سے بڑا صوبہ پنجاب ابتدا میں تمام تر ہسپتالوں کے اندر کورونا کے مریضوں کے لیے محض 1122 بستر مختص کر پایا۔ مریضوں کی بڑھتی تعداد کے پیشِ نظر اس تعداد کو بڑھا کر تین ہزار سے زیادہ کیا گیا لیکن وہ بھی کم پڑ گئی۔ اس کے بعد عارضی فیلڈ ہسپتال قائم کیے گئے۔اسی طرح سندھ حکومت نے تمام اضلاع میں فیلڈ ہسپتال قائم کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ فیلڈ ہسپتالوں میں میسر بستروں کی تعداد کو ملا کر اس وقت پاکستان میں کورونا کے مریضوں کو دستیاب ہسپتال کے بستروں کی تعداد 19 ہزار سے کچھ زیادہ ہے۔کورونا سے لڑنے والے طبی عملے کے لئے یہ وبا کوئی بھید نہیں رہی۔ احتیاطی تدابیر‘ قوت مدافعت میں اضافہ اور مریض کا تخلیہ میں جانا اب تک بہت سی جانیں بچانے کا ذریعہ بنا ہے۔ کورونا کی ویکسین کا حصول ہماری کمزور مالی حیثیت کی وجہ سے مشکل بنا ہوا ہے۔ دوسرا ترقی یافتہ ممالک ویکسین کو ذخیرہ کر رہے ہیں۔ ان حالات میں پاکستان کے شہریوں کو زیادہ سے زیادہ احتیاطی تدابیر پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ کورونا کے وہ مریض جن کو گھر میں رکھ کر مدد نہیں فراہم کی جا سکتی ان کے لئے ہسپتالوں میں گنجائش پیدا کرنا یا نئے ایمرجنسی مراکز قائم کرنا ہوں گے۔ وینٹی لیٹرز کی کمی پچھلے ایک سال سے زیر بحث رہی ہے۔ بتایا گیا کہ پاکستان نے اپنے وینٹی لیٹر تیار کر لئے ہیں۔اس صورت میں وینٹی لیٹر یا آکسیجن کی عدم دستیابی کے باعث مریضوں کی اموات کا سلسلہ کم ہونا چاہئے۔ پاکستان ایک مشکل وقت سے گزر رہا ہے، کمزور انتظامی ڈھانچے اور ناکافی طبی سہولتوں کے باوجود طبی عملے نے بھر پور صلاحیت کا مظاہرہ کیاہے۔ کورونا کے کیس جس رفتار سے بڑھ رہے ہیں اس کو روکنے کے لئے چند روز کے لئے مکمل لاک ڈاﺅن اور طبی سہولیات میں اضافہ ضروری ہو گیا ہے۔
٭٭٭