کورونا وائرس کام نہ کرنے کا بہانہ بن گیا ہے!!!

0
139
حیدر علی
حیدر علی

میں تو سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں جو افراد کورونا وائرس کا شکار ہوکر اگر انتقال نہیں کرتے تو انتہائی خوش قسمت ہوتے ہیں کیونکہ سارا پاکستان اُنہیں راتوں رات پہچان لیتا ہے بلکہ عام خیال یہ ہے کہ کورونا وائرس میں مبتلا صرف بڑی شخصیت ہی ہوتیں ہیں، مثلا”و زیر اعظم، اُن کے وزرا اور سیکرٹری اور اُن تمام حضرات کی بیگمات جو دِن میں لِپ سٹیک سے لتھڑ پتھڑہوکر بازاروں میں گشت لگاتی پھرتیں ہیں اور رات میں گھر آتے ہی یہ شوشا چھوڑدیتی ہیں کہ اُنہیں کورونا وائرس ہوگیا ہے، آئندہ روز جب راہگیر اُنہیں بازار میں گشت لگاتے ہوے دیکھتا ہے تو فورا”چیخ دیتا ہے کہ ” ارے یہ تو وہی بیگم صاحبہ ہیں جن کی تصویر اخبار میں شائع ہوئی ہے اور جن کو کورونا وائرس لگ گیا ہے“ بعد ازاں راہگیر کے ذہن میں یہ سوال اُبھرتا ہے کہ اگر بیگم صاحبہ کورونا وائرس میں مبتلا ہیں تو اُنہیں بازار میں مٹر گشت کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ پھر وہ سوچ کر خاموش ہوجاتا ہے کہ بڑے لوگوں کی بڑی باتیں۔لیکن جب ایک مرکزی وزیر جو کورونا وائرس کا شکار ہوگئے تھے ، جب اُن کا ایک دیرینہ دوست ملنے کیلئے اُن کے گھر آن پہنچا تو اُنہیں سخت حیرانگی ہوئی، اُنہوں نے اُن سے پوچھا کہ کیا آپ کو نہیں پتا کہ میں کورونا وائرس میں مبتلا ہوں، پاکستان کے سارے اخبارات میں اِس کی خبر شہ سرخی کے ساتھ شائع ہوئی ہیں، ٹی وی پر اِس کی خبر ہر پانچ منٹ بعد نشر ہورہی ہے کہ پاکستان کے مایہ ناز گیس اور پٹرولیم کے وزیر جن کے دور میں پٹرول کی قیمت میں صد فیصد اضافہ ہو گیا ہے، کورونا وائرس میں مبتلا ہوگئے ہیں، اُنہوں نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ صرف اُن کےلئے دُعا کریں، بد دُعا اِسلئے نہ کریں کیونکہ پٹرول کی قیمت میں مزید اضافہ ہونا باقی ہے، بہرکیف وزیر پٹرولیم کے دوست نے جواب دیا کہ ” وہ سارے اخبارات کی خاک چھان چکے ہیں© ، وہ ٹی وی کی خبریں بھی سُن چکے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ اُن کے دوست وزیر پٹرولیم کو کوئی بھی کورونا وائرس وغیرہ نہیں ہوا ہے،وزیر پٹرولیم نے پہلے مسکرایا ، اور پھر ایک زوردار قہقہہ لگاتے ہوے کہا کہ ” دوست ہو تو ایسا جو اپنے دوست کی رگ رگ سے واقف ہو۔چلو تمہیں حقہ بار میں حقہ سے سواگت کر تے ہیں“لیکن وزیر پٹرولیم دِل کی بات اپنے دوست کو بتانے سے باز نہ رہ سکے، اُنہوں نے کہا کہ آخر میں ہی کوئی اُلو کا پٹھا ہوں جو کام کروں، سارے وزرا، وزیراعظم اور صدر کورونا وائرس کا بہانہ بنا کر گھر بیٹھ گئے ہیں، کسی کو بھی کال کرو تو اُن کا سیکرٹری یہی جواب دیتا ہے کہ صاحب کو ڈیپ لگی ہوئی ہے، وہ سو رہے ہیںیا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ سوتے ہی رہ جائیں اور حزب اختلاف والے سنبھال لیں حکومت میں تو کل پھر میڈیا میں یہ پریس ریلیز بھیج دونگا کہ وزیر پٹرولیم کو دوبارہ کورونا وائرس لگ گیا ہے بلکہ ہر ہفتے ایک نیا پریس ریلیز ہمارے دفتر سے جاری ہوا کریگا کہ وزیر پٹرولیم کو پھرکورونا وائرس نے ڈنک مارا ہے اور ہوسکتا ہے مجھے ساری دنیا میں سب سے زیادہ مرتبہ کورونا وائرس کا حملہ ہو اور مجھے اِس موزی وائرس سے کامیابی سے شفایاب ہونے پر گولڈ میڈل ایوارڈ سے نوازا جائے،ٹھیک ہے تا حیات مجھے کوئی ایوارڈ نہیں ملا ہے، میں اِس موقع کو ضائع نہیں کرسکتا، میں چاہتا ہوں کہ کورونا وائرس کا ایوارڈ مجھے مل جائے اور تمام تقریبات میں میرا تعارف کچھ یوں ہو کہ محترم فلاں فلاں، وزیر پٹرولیم ِ کورونا وائرس کے گولڈ میڈل یافتہ میں جانتا ہوں کہ چند ایڈیٹ لوگ یہ سمجھیں گے کہ میں نے کورونا وائرس سے بچا¶ کیلئے کوئی تحقیقاتی کام کیا ہے، ایسے ایڈیٹ لوگوں کو پاکستان کے بجائے سمندر پار میں ہونا چاہئے۔
لیکن یہ کوئی ضروری نہیں کہ اخبارات یا میڈیا میں صرف اہل ثروت یا با اثر افراد کے بارے میں ہی خبریں زینت بنتی ہیں، ملیر کے سبزی فروش نورالدین کے کورونا وائرس میں مبتلا ہونے کی خبر بھی اخبار میں شائع ہوئی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ موصوف ایک انتہائی پُر خلوص اور ایماندار سبزی فروش ہیں، ورنہ کراچی میں تو تمام سبزی فروش بھنڈی یا کریلا تولتے وقت ڈنڈی مار دیتے ہیں اور گھر کی بیگمات اِس کا سارا الزام نوکر چاکر پر لگادیتی ہیں کہ نورا کو تو پیسے دیئے تھے ایک کلو کے لیکن معلوم یہ ہوتا ہے کہ اُس نے صرف آدھے کلو بھنڈی خریدی ہے ، اور آدھے پیسے کی رقم چرس پینے کیلئے رکھ لی ہے ،خدا بچائے اِس قوم کو چرس اور بھنگ کی عادت سے اسکول کے ٹیچر سے لے کر وزیراعلیٰ اور گورنر تک سب کے سب بھنگ پینے کے عادی بن گئے ہیں، معاف کیجئے گا خبر کے بیشتر حصے کو میں نے اپنی طرف سے لگا دیا ہے ، ورنہ اخبار کے بند ہونے کا خطرہ لاحق ہو سکتا تھا لیکن اخبار میں نورالدین سبزی فروش کے پُر خلوص ہونے کی وجہ یہ بتائی گئی تھی کہ اُن کے والد ایک رومانوی شاعر تھے، اور جن کا تعلق لکھنﺅسے تھا، اُن کے وائرس میں مبتلا ہونے کی وجہ یہ بتائی گئی تھی کہ کسی گاہک نے سبزی کی رقم کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ اُنہیں کورونا کا وائرس بھی دے گیا تھالیکن اخبار میں نورالدین سبزی فروش کے بارے میں خبر کا شائع ہونا ایک بڑی بات تھی، اُن کے گاہکوں پر اِس کا بہت اچھا اثر پڑا تھا ، سبھوں نے یہ سمجھا تھا کہ نورالدین کے کوئی قریبی رشتہ دار اخبار کے کے ایڈیٹر وغیرہ ہیں اور سبھوں کی خواہش یہی ہوتی تھی کہ وہ نورالدین کے دکان سے کچھ نہ کچھ ضرور خریدیں، ایک شخص کو میں جانتا ہوں وہ اُن کی دکان سے لہسن خریدنا شروع کردیا تھا، اُس کی بیگم اُسے ہمیشہ یہ اصرار کرتی تھی کہ لہسن خرید کر لایا کرو اور اِس کا استعمال سالن میں زیادہ سے زیادہ کیا کرو جس سے بلڈ پریشر قابو میں رہتا ہے، اِس طرح کی بیگم نیم حکیم خطرہ جان بھی ہوتی ہیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here