رمضان المبارک کی مبارکباد اپنے تمام قارئین کو دیتے ہوئے ہم اللہ رب العزت سے دست بدعاءہیں کہ ہمیں رمضان کیلئے سلامت رکھ اور رمضان کو ہمارے لئے سلامت رکھ اور اسے ہمارے سلامتی کیلئے قبولیت کا ذریعہ بنا دے۔ رحمت، برکت اور بخشش کے اس ماہ مقدس میں ساری اُمت مسلمہ عبادات و ریاضات میں گزارے گی اور فیوض و برکات سے مستفید ہوگی۔ انشاءاللہ۔ رحمتوں اور برکتوں کے اس ماہ میں اسلام کے نام پر قائم ہونے والی مملکت اسلامیہ پاکستان میں ہمارے لوگوں کے رویوں میں کوئی مثبت پیش رفت ہوتی نظر نہیں آتی۔ سیاسی اشرافیہ اپنے مفاداتی منافقانہ کھیل میں جو تُم پیزار ہے تو کاروباری ہوس کار رمضان میں عوام کی ضروریات کے باعث گرانی، زیادہ سے زیادہ منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی کے بدترین فعل میں مصروف ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ دین کی خدمت کے دعویدار مذہبی آڑ میں امن و امان کے درپے ہیں۔ سوموار کو تحریک لبیک کے سعد رضوی کی گرفتاری کے واقعہ پر کراچی سے خیبر تک جس طرح کے حالات پیدا کئے گئے وہ کسی بھی طرح کسی مذہبی جماعت اور اس کے پیروکاروں کے حوالے سے مستحسن قرار نہیں دیئے جا سکتے۔ آمد و رفت کے ذرائع و وسائل کو بلاک کر دیئے جانے کے باعث عوام خصوصاً اپنے گھروں تک پہنچنے والے مرد و خواتین و بچوں کی دُشواریاں، مریضوں کو لے جانےوالی ایمبولینسوں کو مشکلات کےساتھ مظاہروں اور تخریبی کارروائیوں کے باعث بازاروں کی بندش نے لوگوں کی رمضان کریم کیلئے تیاریوں کو متاثر کیا۔ سوچنے کی بات ہے کہ ایک مذہبی تنظیم کو یہ سب زیب دیتا ہے کہ اس وقت پر اپنے مقاصد کیلئے خواہ وہ صحیح ہوں یا غلط امن و امان کو داﺅ پر لگا کر مخلوق خدا کو اذیت سے دوچار کیا جائے۔ ریاست کو دباﺅ میں لانے اور اپنی ضد منوانے کیلئے منفی ہتھکنڈے و ہنگامے نہ مذہبی حوالے سے درست ہو سکتے ہیں اور نہ اخلاقی طور پر قابل قبول ہو سکتے ہیں۔
یہ امر قابل تحسین ہے کہ سیاسی جماعتوں نے ٹی ایل پی کے اس منفی ایجنڈے پر اس کا ساتھ نہ دیا اور ریاست کے رٹ برقرار رکھنے کے اقدام میں رکاوٹ نہیں بنیں، البتہ ان کی آپس کی سیاسی چُپقلشیں حسب معمول جاری ہیں پی ڈی ایم کے غیر فطری اتحاد کے حوالے سے ہم پہلے ہی متعدد بار عرض کر چکے تھے کہ ساجھے کی یہ ہنڈیا جلد ہی بیچ چوراہے پھوٹے گی اور بالآخر ہنڈیا پُھوٹ گئی۔ گیارہ جماعتوں سے دس ہونےوالے اس اتحاد میں سوائے عمران خان کی مخالفت اور حکومت گرانے کی کوئی قدر مشترک نہیں تھی جبکہ ہر جماعت کے اپنے مفادات ایک دوسرے سے مختلف تھے۔ ممکن ہے کہ بات اگر عمران مخالفت تک رہتی تو یہ اتحاد کچھ عرصہ چل جاتا لیکن نوازشریف کے فوج مخالف بیانیہ اور مریم نواز، شاہد خاقان عباسی و دیگر ن لیگی لیڈروں کے آمرانہ مزاج اور خود کو دیگر جماعتوں سے برتر گرداننے کی سوچ نے اس اتحاد کو کہیں کا نہ رکھا۔ تابوت میں آخری کیل بلا سوچے سمجھے اے این پی اور پیپلزپارٹی کو شوکاز ثابت ہوا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ اے این پی اور پی پی پی نے پی ڈی ایم کو دھتکاردیا ہے اور اپنے پی ڈی ایم میں سارے عہدیداروں کی علیحدگی کا اعلان کر دیا ہے۔ بلاول نے تو واضح طور پر استعفے نہ دینے کا اعلان کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کے پارلیمانی کردار کو جاری رکھنے کا عندیہ دیا ہے اور ن لیگ کی اکڑفوں کی شوکاز پھاڑ کر دھجیاں بکھیر دی ہیں۔ حالت یہ ہے کہ ڈسکہ کے ضمنی انتخاب میں کامیابی کے باوجود ن لیگ کی صفوں میں اپنے مستقبل کے حوالے سے اوس پڑی ہوئی ہے، اے این پی و پیپلزپارٹی کے حوالے سے کئے جانے والے اقدام کو مختلف حیلوں، بہانوں سے دوسرا رُخ دینے اور ملبہ فضل الرحمن پر ڈالنے کی کوششیں شروع کر دی ہیں، گویا اب عمران خان کی حکومت گرانے والا پی ڈی ایم اتحاد پارہ پارہ ہونے کو ہے۔
وطن عزیز میں پے درپے ہونے والے شورش کا ہنگامہ محض حکومت مخالف ہی نہیں بلکہ اس کے پس منظر میں ریاست مخالف بیرونی عوامل و قوتوں کا کردار بھی بعید از قیاس نہیں۔ بھارت سے تجارتی روابط کے احیاءکیلئے امریکہ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے بیک ڈور چینل کی بازگشت ابھی ختم نہیں ہوئی۔ تحریک لبیک کا فرانسیسی سفیر کو واپس بھیجنے کا مطالبہ بھی خالی ازعلت نہیں، خصوصاً ایسے وقت میں کہ جب جون میں پاکستان کا گرے لسٹ سے نکلنے کا قوی امکان ہے جبکہ بھارت کے گرے لسٹ میں ڈالنے کی خبریں بھی ہیں۔ لازمی بات ہے کہ ان حالات میں وطن کی سلامتی و خوشحالی کیلئے صرف حکومت ہی نہیں ریاستی اشرافیہ بھی اپنے کردار کی ادائیگی کیلئے پُرعزم ہے اور ریاست کے ہر شعبہ کا قبلہ دُرست کرنے کیلئے عمل پیرا ہے اور یقیناً اس کیلئے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرے گی۔
اس امر میں کوئی شُبہ نہیں کہ موجودہ حکومت نے گزشتہ ڈھائی سالوں میں نہ صرف معیشت کی بہتری کیلئے سخت جدوجہد کی ہے بلکہ عوام کے بہتر حالات زندگی خصوصاً نچلے متوسط اور غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والے طبقات کیلئے احساس پروگرام، پناہ گاہ، ہیلتھ کارڈ اسکیم و دیگر فلاحی اقدامات بھی کئے ہیں۔ حال ہی میں ہر شہری کیلئے گھر اور کوئی بھوکا نہیں سوئے گا قسم کے پروگراموں کا اجراءبھی کیا گیا ہے لیکن ان سارے احسن اقدامات پر منہگائی و بیروزگاری کے سائے اس قدر گہرے ہو گئے ہیں کہ عوام الناس حکومت سے شاکی نظر آتے ہیں۔ دوسری جانب کرپٹ مافیا کےخلاف کرپٹ سیاستدانوں کےخلاف کئے جانےوالے اقدامات کا نہ ہی کوئی واضح نتیجہ سامنے آسکا ہے، نہ ہی عوام کا لوٹا ہوا سرمایہ واپس آسکا ہے، نتیجہ یہ کہ مخالفین تو درکنار اب خود پی ٹی آئی کے اندر اس حوالے سے تحفظات سامنے آرہے ہیں۔ مزید برآں پارلیمانی و آئینی معاملات پر کوئی خاطر خواہ پیشرفت نظر نہیں آتی کہ حکومت اور مخالفین کے درمیان ڈائیلاگ اور قانون سازی کی کوئی صورتحال محال لگتی ہے۔ واضح بات ہے کہ یہ صورتحال کسی بھی طرح ریاست و مملکت کے مفاد میں نہیں جاتی۔ ان حالات میں یہ امکان خارج نہیں کیا جا سکتا کہ ریاستی اشرافیہ بہتری کیلئے مزید کچھ اقدامات و فیصلوں پر عمل کرے۔ قطع نظر اس حقیقت کے کہ موجودہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ایک پیج پر ہیں، پیپلزپارٹی اور اے این پی سمیت بعض جماعتوں کا پارلیمانی بیانیہ اور پی ڈی ایم خصوصاً ن لیگ و مولانا سے اختلاف اس امر کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ بہت جلد کچھ ایسے فیصلے سامنے آنے ہیں جن سے یہ حکومت بھی اپنی مدت پوری کرے، ریاست و مملکت کو بھی سکون ہو اور فروعی معاملات سے ہٹ کر عوام و ملک کی بہتری کیلئے اقدامات کئے جا سکیں،بہرحال پی ڈی ایم کی ساجھے کی ہنڈیا تو پُھوٹ چکی ہے۔
٭٭٭