غیر جمہوری اقدامات …عدم استحکام کا سبب!!!

0
112
جاوید رانا

قارئین محترم الحمد اللہ یہ خاکسار اللہ رب العزت کے کرم سے 14 جنوری کو سرکار دو عالمۖ حبیب کبریا کے روضۂ اقدس پر حاضری سے مشرف ہوا۔ گنبدِ خضراء کے سائے میں سنہری جالی کے سامنے درود و سلام کیساتھ اپنے لئے، پاکستان کیلئے اور غزہ کے مظلوموں و ساری اُمت مسلمہ کیلئے حضور پاکۖ سے گِڑ گڑا کر دعائیں کیں، ”اے خاصۂ خاصان رُسل وقت دعا ہے۔ اُمت پہ تیری آکے عجب وقت پڑا ہے”۔ اس عمل میں میرے ہمسفر و قافلہ بردار رانا زاہد حمید، چودھری منیر اختر، عبدالرحمن یعقوب، ڈاکٹر سمیر شفیع، سہیل شفیع و دیگر ساتھی بھی فیضان رحمت و سعادت کے حصول میں شامل رہے۔ الحمد اللہ مسجد نبوی میں عبادات و ریاضت کیساتھ جنت البقیع، مقامات احد و غزوہ احزاب اور دیگر زیارات پر حاضری کی سعادت بھی حاصل ہوئی اور روح و قلب کی تطہیر کا باعث بنی۔ 17 تاریخ کو مکہ مکرمہ پہنچے اور عمرہ کی سعادت سے فیضیاب ہوئے اور اللہ کریم کے حضور دعائیں پیش کیں اور قبولیت و مبروریت کی التجائیں کیں۔ اللہ رب العزت ساری اُمت مسلمہ بالخصوص پاکستان، فلسطین و کشمیر کے حوالے سے اپنے رحم و کرم سے نوازے۔ آمین۔ جس وقت ہمارا یہ کالم آپ کی نظر سے گزرے گا ہم خانۂ خدا میں ہی ہونگے، ہم نے اپنے گزشتہ کالم میں پاکستان میں ہوتے ہوئے سیاسی حوالے سے جن خدشات کا اظہار کیا تھا، آخر وہی ہوا۔ پی ٹی آئی کے انتخابی نشان کے حوالے سے سپریم کورٹ کا فیصلہ اور پی ٹی آئی کو اس کے نشان سے محروم کیا جانا اس بات کی دلالت ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کا انسانی اصولوں اور آئین کی بالادستی کو مد نظر رکھنے کا دعویٰ محض ڈھونگ ہی تھا اور باکسنگ کی اصطلاح میں سجا دکھا کر کھبا مارا گیا ہے اور اس امر کو یقینی بنایا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کو مقتدرین کی منشاء کے مطابق الیکشن میں بطور پارٹی حصہ لینے سے محروم کر دیا جائے۔ جسٹس اعجاز الاحسن کا استعفی، چیف جسٹس کا جسٹس محمد علی مظہر اور مسرت ہلالی پر بینچ تشکیل دینا، جسٹس منصور علی شاہ و اطہر من اللہ جیسے سینیٹرز کو نظر انداز کرنا اس حقیقت کی دلیل ہے کہ فیصلہ اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے مطابق ہی ہو۔ کارروائی جس طرح سے ہوئی اس کی تفصیل ساری قوم جانتی ہے، اس کے مضمرات و اثرات یہ ہوئے کہ پی ٹی آئی بطور سیاسی پارٹی انتخابی پراسس سے باہر کر دی گئی، اس کے امیدوار مختلف نشانات پر الیکشن آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ جسٹس فائز عیسیٰ نے جو آئین، جمہوریت اور عوام کے حقوق کے دعویدار بنتے ہیں اس وقت وہی کردار ادا کیا جو سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے ن لیگ کے سینیٹ کے امیدواروں کیساتھ کیا تھا۔ اس تمام صورتحال میں عمران خان نے الیکشن میں بھرپور حصہ لینے کا پُرعزم اعلان کیا ہے اور اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ الیکشن کے پی ٹی آئی کے آزاد امیدواروں کو عجیب و غریب اور مضحکہ خیز نشانات الاٹ کئے گئے ہیں، اس کے باوجود عمران خان کے نام پر ان امیدواروں کی بہت بڑی تعداد قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں پہنچے گی، لیکن پارٹی نہ ہونے کے باعث پی ٹی آئی کو خواتین و اقلیتوںکی مخصوص نشستوں سے محروم کر دیا جائیگا۔ اس طرح اسٹیبلشمنٹ اپنی اس سازش میں کامیاب ہوتی نظر آرہی ہے کہ عمران خان کو اقتدار سے باہر رکھا جائے۔ انتخابی نشان سے محروم کئے جانے اور اقتدار سے دور رکھے جانے کا یہ کھیل آج کا نہیں ہے۔ ضیاء الحق نے مارشل لاء لگانے کے بعد 79ء میں انتخابات کرانے کا اعلان کیا (جو نہیں ہوئے) تو دو بڑی جماعتوں پیپلزپارٹی و پی این اے کے نشان تلوار اور ہل انتخابی فہرست سے خارج کر دیئے گئے۔ 85ء میں غیر جماعتی الیکشن کرا کے پارٹی کے انتخابی نشان کا کانٹا ہی ختم کر دیا۔ پی پی پی پر پابندی کے باعث پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرین کو تیر کا نشان لینا پڑا۔ یہ اسٹیبلشمنٹ کا شروع سے ہی وطیرہ ہے ،جس سے ناراضگی ہوئی تو مارشل لاء لگا دیا، ایمر جنسی نافذ کردی، نئے لیڈر بنا دیئے اور حق داروں کو دیوار سے لگا دیا، پٹواری، جھرلو، آراوزو یا آر ٹی ایس کو ذریعہ بنا لیا۔ یہ سب نہ ہوا تو عدالتی گٹھ جوڑ سے اپنا الّو سیدھا کر لیا۔ جب کچھ نہ بن سکا تو ملتوی کرا دیا۔
ہمارا تجزیہ اور اندازہ یہ ہے کہ چیف جسٹس کے دعوے پتھر پرلکیر کے باوجود 8 فروری کو انتخابات اول تو ہونے ہی نہیں ہیں، سینیٹ میں التواء کی تیسری قرارداد پیش کر دی گئی ہے، دلاور خان نے چیئرمین سینیٹ کو خط لکھ دیا ہے کہ التواء کی منظور شدہ قرارداد پر الیکشن کمیشن سے عملدرآمد کرایا جائے۔ اگر اس کے بعد بھی الیکشن کا ڈرامہ رچایا جاتا ہے اور مقتدرین کی خواہش کے مطابق نتائج لائے جاتے ہیں تو عوامی احتجاج اس قدر بھیانک ہوگا کہ نہ جمہوریت رہے گی نہ ایوان بچیں گے۔ ملک مزید بحران اور عدم استحکام کا شکار ہوگا اور اس کے نتائج نہ صرف ملک و عوام بلکہ عالمی سطح پر بدترین ہونگے۔ واضح رہے کہ یہ 80,70 یا 90 کی دہائیوں کا دور نہیں 20 ویں صدی کی تیسری دہائی ہے اور شعور، احتجاج اور حق حاصل کرنے کے پیمانے بدل چکے ہیں۔ ملک کے ساڑھے بارہ کروڑ ووٹرز میں 60 فیصد نوجوان نسل ہے اور اسے اپنا حق لینے کا ماضی کے لوگوں سے زیادہ شعور ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here