سب سے حیرت انگیز وہ میوزیم ہے جہاں بادشاہ یا فرعون کے مردہ جسموں کو ایک خاص مصالحہ لگا کر ان کے خزانوں سمیت دفن کردیا جاتا تھا۔ یہ فرعون کوئی ایک نہیں ہیں بلکہ ایک کے بعد ایک مختلف بادشاہ آتے گئے اور حکومت کرتے رہے۔ ان کے بڑے بڑے بہت پورے مصر میں موجود ہیں۔ خاص طور سے اس علاقے میں جو ان کا دارلخفلاانہ تھا اس کے علاوہ ان کے مرنے کے بعد ان کو خاص مصالحہ لگا کر سونے کے تابوت میں بند کرکے ایک مقبرہ سا بنا کر یا اہرام بنا کر اس میں رکھ دیا جاتا ساتھ ہی میں سونا چاندی اور موتی ان کے زیورات سب ہی کچھ رکھا جاتا یہ لاشیں اور خزانے جب بھی برآمد ہوئے ان کو باقاعدہ میوزیم میں گلاس فریم میں رکھا جاتا ہے۔ جو آج بھی اپنی اصلی حالت میں موجود ہیں۔ یہ بادشاہ اپنے آپ کو خدا بھی کہلواتے تھے کیونکہ یہ عوام کا خاص خیال کرتے تھے کیونکہ یہ عوام کا خاص خیال کرتے تھے۔ مگر بعد میں ایسے بت بھی ہیں جن کے ذریعے یہ ظاہر کیا گیا کے یہ بھی انسان ہیں تھکتے ہیں بیمار ہوتے ہیں۔ نیشنل میوزیم قاہرہ ہیں۔ فرعون کا وہ بسم رکھا ہے جو دریا میں غرق ہوگیا تھا۔وہ بھی اپنے خدوخال سمیت موجود ہے۔ ایک خلقت ان سب کو دیکھنے آتی ہے۔ یہ ایسا عجوبہ ہے جس کو لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے۔ ہم بحری جہاز سے ایک جگہ رسوانہ پہنچے جہاں پر کھدائی کے بعد بے شمار محلات نکلے قدیم زمانے کے کھنڈرات اس بات کا پتہ دیتے ہیں کے اس زمانے کے لوگوں کو علاج معالجہ پر بھی دسترس حاصل تھی۔ ہمارے گائیڈ نے ایک ایسا کمرہ دکھایا جس پر دیواروں پر پہلے زمانے کی زبان میں کچھ تحریریں تھیں۔ یہ علاج تھے جو دیواروں پر کندہ تھے اور دیکھنے والے پہچان لیتے تھے کے کس بیماری کے لئے کیا دوا دی جائے۔ ایک طرح سے یہ ان کی فارمیسی تھی۔ طبیب تھے جو جڑی بوٹیوں سے علاج کرتے تھے۔ چار دن اس خوبصورت شہر میں رہنے کے بعد ہم سب ہوائی جہاز سے دوبارہ قاہرہ پہنچے اور وہاں ایک اور میوزیم دیکھا جو کے کلچرل میوزیم کہلاتا ہے۔ یہ قاہہ کی صدیوں پرانی تہذیب بتاتا ہے۔ یہاں جگہ جگہ بادشاہوں کے بت آویزاں ہیں یہ وہ بادشاہ تھے جو اپنے آپ کو نعوذ باللہ خدا کہتے تھے۔ اور ان کے بت اس طرح بنے ہوئے تھے کے وہ کہتے تھے ہم جاگ رہے ہیں ہم ہر طرف دیکھ رہے ہیں۔ یہاں سونے کے تابوت بھی رکھے ہیں۔ ہم اس پراسرار زمین سے نکل کر جب امریکہ کی طرف روانہ ہوئے تو یاد آیا کے شائستہ جو پاکیزہ کی نے کہا تھا کے آپ مصر کے بارے میں کچھ لکھیئے گا۔ مصر کی پانچ ہزار سالہ تہذیب کے بارے میں چند مضمون پر لکھا جاسکتا ہے جو بہت کچھ دیکھا۔ تھوڑا بہت سمجھا اور اس سے بھی کم رکھا۔ ہاں مگر ایک بات کہوں گی۔ مصر جانے سے پہلے اس کی تاریخ پڑھ کر جائیں تب ہی دیکھنے اور لکھنے کا مزا آئے گا۔ ایک ہفتے میں جتنا دیکھا اور جتنا چلے کیونکہ بہت سے مقبرے سو دو سو سیڑھیوں پر مشتمل ہیں۔ اس نے اتنا تھکا دیا تھا کے وقت پر تحریر لکھنا مشکل تھا جو لکھا یادداشت کو جمع کرکے لکھا۔ امید ہے قارئین تک کچھ تو پہنچے گا۔
٭٭٭٭