ملکی استحکام کی ضمانت عوام کی بقائ!!!

0
162
جاوید رانا

 

جاوید رانا، بیوروچیفشکاگو

پاکستان کے سپہ سالار جنرل باجوہ نے گزشتہ ہفتے ایبٹ آباد میں پاسنگ آﺅٹ پریڈ سے خطاب کرتے ہوئے افواج پاکستان کے عزم، ملکی سا لمیت و خوشحالی کیلئے عسکری ادارے کی خدمات و اقدامات کے حوالے سے جہاں تمام فوجی و سول معاملات کی صراحت سے گفتگو کی وہیں انہوں نے بطور خاص دور حاضر میں ہائیبرڈ وار کا بھی احاطہ کرتے ہوئے واشگاف انداز میں بیرونی اور اندرونی دشمنوں کو اس جنگ میں بھی نیست و نابود کر دینے کا اعلان کر دیا۔ پاکستانی معروضی حالات پر نظر ڈالی جائے تو یہ حقیقت واضح ہے کہ وہ دشمن قوتیں جو پاکستان کو اپنے ایجنڈے کے مطابق چلانا چاہتی ہیں یا پاکستان کے وجود کے ہی خلاف ہیں، اپنے پالتو گماشتوں، تنخواہ دار ایجنٹوں کے ذریعے ملک کے اندر شورش، عدم استحکام کیلئے ہائیبرڈ وار کے وہ تمام حربے استعمال کر رہی ہیں جو اس قسم کی جنگ میں استعمال کئے جاتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ریاست، حکومت مخالف پروپیگنڈے، مختلف طبقوں میں مذہب، فرقہ واریت، صوبائیت پھیلانے، ملک میں کسی نہ کسی موضوع پر بد امنی اور اختلاف برپا کرنے سمیت ہر ہتھکنڈہ آزمایا جا رہا ہے۔ اس وقت پر آرمی چیف کا متذکرہ عزم اور اعلان اہم ترین ہے لیکن کیا ہماری سیاسی اشرافیہ (بشمول حکومت) مذہبی طبقات و دیگر حلقے اس خطرے کو سنجیدہ لے رہے ہیں؟
اس سچائی کو ساری دنیا تسلیم کرتی ہے کہ پاکستان کو ایک نیو کلیائی ملک اور دنیا کی بہترین پیشہ ور افواج کا حامل ہونے کے باعث نہ ہی روایتی جنگ میں شکست دی جا سکتی ہے اور نہ ہی قوم کے جذبہ¿ وحدت و حب الوطنی کو متزلزل کیا جا سکتا ہے۔ بھارت پاکستان کا ازلی دشمن ہے اور اس کی پاکستان دشمنی کے واقعات سے 73 سال کی تاریخ بھری پڑی ہے۔ روایتی جنگوں کےساتھ پاکستان کے اندر شورشوں، دہشتگردانہ کارروائیوں اور نفرت و عناد کی حرکات ایک طویل سلسلہ ریکارڈ پر ہے۔ اس کی بڑی مثال کلبھوشن ہے، اختصار کا سہارا لیتے ہوئے یہ عرض کرنا ہے کہ بھارت کی ان پاکستان دشمن سرگرمیوں میں اب اُن عالمی قوتوں اور ممالک نے بھی اشتراک کر لیا ہے جو پاکستان سے اپنے مفادات و ایجنڈے پر سپورٹ چاہتے ہیں۔ اس میں کچھ ایسے دوست بھی شامل ہیں جن کے مقاصد میں پاکستان کا اشتراک کسی بھی طور سے ہمارے حق میں نہیں۔ ایک دوست ملک کا وقت سے پہلے پاکستان سے قرضے کی واپسی کا مطالبہ یقیناً قارئین کو یاد ہوگا۔ اس تناظر میں پاکستان میں سوشل میڈیا پر پاکستان اور ملکی اداروں کے حوالے سے جھوٹ اور خرافات کا ایک طوفان برپا ہے، صرف یہی نہیں مذہبی، فرقہ وارانہ و مسلکی نفرت پھیلانے کی قبیہہ کوششوں کے ساتھ بعض سیاسی قائدین کی حکومت و ریاست کےخلاف زہریلا پروپیگنڈہ پاکستان دشمنی کا آئینہ ہے اور اس کے ذریعے قوم میں عدم رواداری و باہمی خلفشار کا باعث بن رہا ہے۔
ہائیبرڈ وار یا پراکسی وار کا تازہ ترین واقعہ کراچی میں مسجد فاروقیہ کے مہتمم مولانا ڈاکٹر عادل خان کی شہادت ہے، مولاناعادل فقہہ حنفیہ کے جید عالم و استاد تھے، ان کی شہادت کو فقہ جعفریہ کا ارتکاب قرار دیکر واقعہ کو شیعہ، سنی افتراق کا نتیجہ قرار دیا جا رہا ہے۔ پاکستان کو کمزور کرنے کیلئے شیعہ، سنی فسادات کی بھارتی سازش کے ایجنٹ کچھ دن قبل گلگت بلتستان اور پختونخواہ و جنوبی پنجاب سے پکڑے گئے تھے، ہماری ایجنسیز و افواج نے اس سازش کو مٹی میں ملا دیا تھا۔ بھارت کے یہ ایجنٹ و تنخواہ دار اب بھی اپنی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ واضح رہے کہ وزیراعظم عمران خان اور آئی ایس پی آر پہلے بھی عوام کو اس نفرت انگیز سازش سے خبردار کر چکے تھے اور دشمن کی اس حرکت کو ناکام بنانے کیلئے باہمی اتحاد کی اپیل کر چکے تھے۔ حالیہ واقعہ کے بعد وزیراعظم نے تمام مکاتب فکر کے علماءکے باہمی اتفاق سے ضابطہ¿ مذہبی رواداری مرتب کیا لیکن اس پر کوئی قانونی اقدام تا ہنوز نہیں ہو سکا ہے تاہم وزیراعظم اور آرمی چیف کے اس سازش کا قلعہ قمع کرنے کے عزم ضرور سامنے آئے ہیں۔ سوشل میڈیا پر بعض اہم کاروباری اور علمی و دانشور شخصیات کے جعلی آڈیو پیغامات جن میں ریاستی اداروں، حکومت اور انتظامی اداروں کو ہدف تنقید بنایا گیا ہے سامنے آرہے ہیں جن کی یہ لوگ بالذات تردید کر رہے ہیں ار اس عمل کو سازش قرار دے رہے ہیں۔ افسوس تو اس بات پر ہے کہ دشمن کی ان حرکتوں میں ہمارے بعض سیاسی اکابرین، رہنما اور ملک میں برسوں اقتدار کے مزے لوٹنے والے بھی دانستہ یا نادانستہ طور پر دشمن کا مہرہ بنے ہوئے ہیں۔ تین بار ملک کے وزیراعظم رہنے والے نوازشریف، ان کی صاحبزادی، داماد اور ن لیگی رہنماﺅں کے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ و دیگر اداروں کےخلاف بیانات و تقریریں، خطاب، بھارتی بیانیہ کی عکاسی کر رہے ہیں، نہ صرف یہ بلکہ صوبائی تعصب کا بھی بیج بونے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ کیا یہ سب ملکی مفاد کیخلاف پراکسی وار کا حصہ نہیں ہے۔ مولانا کی افغانستان کے حوالے سے دھمکی پیش نظر ہے۔
مخالفین کی یہ حرکات اور بیانیئے تو ان کی سیاسی عدم مقبولیت اور اپنی متوقع ناکامیوں و سزاﺅں کی بناءپر کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مترادف ہے لیکن ہمیں حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ وزیراعظم عمران خان اور ان کے حکومتی و تنظیمی ترجمان و عہدیداران بھی زمینی حقائق کے مطابق کوئی اقدامات کرنے کے بجائے اپنے احتجاجی و الزام تراشی کے بیانیئے سے باہر نہیں نکل رہے ہیں۔ اس بات میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ عمران خان اور پی ٹی آئی کی عوامی مقبولیت سب سے زیادہ ہے اور مخالفین کی سیاسی تحریکات سے انہیں کوئی خطرہ نہیں ہے لیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ مسلم ہے کہ روز بروز بڑھتی ہوئی مہنگائی، عام آدمی کے دو وقت میں روٹی کے حصول کی مشکلات، صنعتی و کاروباری سرگرمیوں میں انحطاط اور امن و امان نیز انتظامی معاملات میں نا اہلی ان کیلئے بڑا خطرہ ہیں۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ دیدہ و نادیدہ دشمنوں کے ناپاک منصوبوں اور ہائیبرڈ وار کی سرکوبی کیلئے وزیراعظم اور ان کی حکومت کو ان اقدامات پر توجہ دینی چاہیے جو عوام کی بہتر زندگی اور ملکی مفاد میں عوام کے اتحاد و یکجہتی کی ضمانت بنیں۔ اس کیلئے عملی اقدامات ٹھوس بنیادوں پر کرنے ہونگے۔ محض چوروں، لٹیروں کو ہدف ملامت بنانے سے بہتری نہیں آئے گی۔ دشمن کی مکاریوں اور چالوں سے نجات کیلئے قومی ہم آہنگی اور بہتری ضروری ہے خصوصاً جب آرمی چیف واضح کر چکے ہیں کہ فوج ہمیشہ منتخب جمہوری حکومت کےساتھ ہے۔
جہاں تک سیاسی مخالفین کے حکومت مخالف احتجاج اور پی ڈی ایم کی تحریک کا تعلق ہے ان جماعتوں کا مطمع نظر محض اپنی سیاسی بقاءکی کوشش ہے، ان کے پاس سوائے مہنگائی کے اور کوئی ایسا ایشو نہیں جو ان کی سیاسی ساکھ اور عوامی مقبولیت میں خاطر خواہ اضافہ کر سکے۔ گوجرانوالہ سے لاہور تک جلسے تو کر لیں گے لیکن کیا ان کے پاس کوئی متفقہ نکتہ ایسا ہے جو انہیں ایک مشترکہ ایجنڈے پر لا سکے۔ نہ ہی کسی مڈٹرم الیکشن کا کوئی جواز ہے، نہ ہی استعفوں پر یہ متفق ہو سکتے ہیں۔ زرداری جیسا زیرک سیاستدان کبھی بھی یہ نہیں چاہے گا کہ وہ سندھ میں حکمرانی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔ خواجہ آصف کا استعفوں کا دعویٰ بھی محض پیالی میں طوفان اُٹھانا ہے۔ خود ن لیگ میں پھوٹ پڑی ہوئی ہے ایسے میں فضل الرحمن کے مدرسوں کے طلباءپر انحصار کر کے تحریک چلانے کا ڈرامہ محض خیال خام ہی ہے۔ وزیراعظم کو صرف اس بات پر توجہ دینی ہوگی کہ ملک اور ان کی حکومت کے استحکام کی ضمانت صرف اور صرف عوام کے مفادات کے تحفظ میں ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here