افغانستان اور ہم…!!!

0
158
جاوید رانا

قارئین کرام! 4 جولائی گزر گئی، امریکہ بھر میں آزادی کی 244 ویں سالگرہ انتہائی جوش و خروش سے منائی گئی، امریکہ میں مقیم مختلف النوع قومیتوں نے یوم آزادی پر بلا تخصیص و تمیز یونٹی اور جذبے کا بھرپور اظہار کیا۔ امریکہ کی کامیابی اور یونی پاور بننے میں دیگر عوامل کیساتھ ایک اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ امریکہ نے یہاں بسنے والی ہر کمیونٹی کو اپنی قومی ترقی میں نہ صرف شامل رکھا ہے بلکہ ان کی کاوشوں اور کامیابیوں کا عملی اعتراف بھی کیا ہے، زندہ قوموں کی شناخت یہی ہوتی ہے کہ وہ اپنی ریاست و مملکت کے تمام اجزائے ترکیبی کو اپنے قومی، آئینی و معاشرتی معاملات میں شامل رکھیں اور ان کے حقوق و فرائض کا مساویانہ خیال رکھیں۔ ہمیں یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ امریکی ریاست و انتظامیہ اس حقیقت کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اپنی داخلی سلامتی و اہمیت کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔
قطع نظر درج بالا حقیقت کے، امریکہ نے اپنی عالمی برتری کی شناخت منوانے کیلئے اپنی خارجہ پالیسی اس طرح استوار کی ہے کہ دنیا کے دیگر ممالک و اقوام پر برتری کیلئے اپنے خطے سے دُور وہ تمام اقدامات کئے جائیں جو ایک جانب امریکہ کو کسی بھی انتشار یا محاذ آرائی سے محفوظ رکھیں اور دوسری جانب اسکی ہیبت و اہمیت کے پیش نظر اسے عالمی عسکری و معاشی قوت کے طور پر تسلیم کیا جائے، دوسری عالمی جنگ، سرد جنگ سے لے کر عراق و افغانستان تک نظر ڈالیں تو یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ ان تمام واقعات میں امریکی سرزمین کو کبھی کوئی گزند نہیں پہنچی، البتہ امریکہ اپنی عالمی برتری منوانے میں کامیاب رہا اور سوویت یونین کی شکست و ریخت کے بعد دنیا کی واحد سُپر پاور بن گیا۔ یہ الگ بات کہ سوویت یونین کی بربادی اس پراکسی وار کے باعث ہوئی جو پاکستان کے اشتراک سے افغان طالبان نے لڑی۔ پاکستان پر اس محاذ آرائی کے جو منفی اثرات ہوئے، نقصانات ہوئے اس کی تفصیل سے ہر پاکستانی بلکہ ساری دنیا واقف ہے، مختصر یہ کہ ایک طرف پاکستان کو دنیا کی سب سے بڑی ہجرت کا سامنا کرنا پڑا اور 30 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کا بوجھ برداشت کرنا پڑا جو دیگر ممالک میں موجود پناہ گزینوں کی طرح پناہ گزین کیمپوں تک محدود نہ رہے بلکہ سارے ملک میں پھیل گئے۔ ملک کے بیشتر کاروباری اور معاشی سرگرمیوں کیساتھ، اسلحے کے فروغ و دہشتگردی کا باعث بنے۔ ان مہاجرین کا حال یہ ہے کہ 40 برس گزرنے، پاکستان کی شناخت کے کارڈ حاصل کرنے کے باوجود یہ پاکستانی معاشرت کا حصہ بننے سے گریزاں ہیں۔
9/11 کی آڑ میں افغانستان پر امریکہ کی نیٹو افواج کے ہمراہ 20 سالہ جنگ اب اختتام کو پہنچی ہے، طالبان سے دوحہ میں ہونیوالے معاہدے کے نتیجے میں افواج کے انخلاء کا مرحلہ جاری ہے اور ممکنہ طور پر آئندہ دو ہفتے میں مکمل ہونے کو ہے۔ اشرف غنی کی موجودہ حکومت کی جانب سے معاہدے کے نکات پر عمل کرنے کے باعث طالبان کے رد عمل اور اس وقت افغانستان کی کشیدہ ترین صورتحال کے باعث خبروں و ذرائع کے مطابق طالبان ملک کے 25 فیصد علاقے پر قابض ہو چکے ہیں۔ جس وقت ہم یہ سطور تحریر کر رہے ہیں طالبان افغانستان کے 140 سے زائد اضلاع پر قبضہ کر چکے ہیں۔ افغان فوج کے ایک ہزار سپاہی و اہلکار تاجکستان میں پناہ لے چکے ہیں جبکہ ایک خبر کے مطابق طالبان جہاں جہاں قبضہ کر رہے ہیں، وہاں افغان افواج کے متعدد اہلکار ہتھیار ڈال کر طالبان کا حصہ بن گئے ہیں یا خاموشی سے اپنے گھروں کو لوٹ گئے ہیں۔ امریکی افواج کے زیر استعمال سب سے بڑی ایئر فیلڈ بگرام ایئر بیس پر طالبان کا قبضہ ہونے کیساتھ 700 سے زائد بڑی گاڑیاں اور جدید اسلحہ بھی ان کے ہاتھ آیا ہے۔ بھارت کے تین سی 130 طیارے اپنا مال و متاع لے کر واپس بھاگ چکے ہیں۔ اس بات کو سب جانتے ہیں کہ مودی اور رائ، اشرف غنی حکومت اور NDS سے مل کر پاکستان کیخلاف دشمنی اور دہشتگردی کا منافرانہ کھیل جاری رکھے ہوئے تھے۔ سرحد پار سے اور پاکستان کے اندر دشمنی کا تازہ ترین واقعہ لاہور میں گزشتہ ہفتے جوہر ٹائون کا دھماکہ تھا، جس کا ہمارے قانون نافذ کرنیوالے اداروں اور ایجنسیز نے نہ صرف پتہ لگالیا بلکہ سارے ملوث ہرکاروں کو گرفتار بھی کر لیا ہے، اس واقعہ کے تانے بانے اور منصوبہ بندی میں را کی سہولتکاری، NDS کے اشتراک کے ثبوتوں کیساتھ ڈیوڈ پال اور عید گُل سمیت 10 افراد کی گرفتاری اور درہم میں ادائیگی نے بھارت کو ننگا کر دیا ہے۔ دیکھا جائے تو یہ سازش محض بھارت کی ہی نہیں بلکہ سپر پاور کے ایماء پر ہمارے کچھ برادر ممالک کی شراکت سے بھی تھی۔ دراصل یہ شاخسانہ وزیراعظم عمران خان کے اس عزم کا رد عمل نظر آتا ہے جو انہوں نے Absolutely Not کہہ کر کہا تھا اور واضح کر دیا تھا کہ ہم امن کیلئے تو پارٹنر ہیں لیکن تنازع کے شریک نہیں بن سکتے۔
خوشی کی بات یہ ہے کہ اس حوالے سے قومی سلامتی کے اجلاس میں ساری ریاست بمعہ سیاسی اشرافیہ متفق نظر آئی اور دنیا تک واضح پیغام پہنچا کہ پاکستانی قوم وطن کی سالمیت و تحفظ کیلئے یکجا ہے اور کسی بھی طرح کے دبائو یا مطالبہ سے مرعوب نہیں ہوگی۔ وزیراعظم کا مضبوط عزم اور پاکستان کی ترقی و خوشحالی کیلئے عالمی و خطہ میں تعلقات کی بہتری و ملکی معاشی برتری کیلئے قطعی لائحہ عمل پر امریکہ اور اس کے اس خطے میں پالتو بھارت اور دیگر مفاداتی ممالک و ادارے مختلف طریقوں سے پابندیوں اور دبائو کا راستہ اپنائیں گے خصوصاً پاک چین مفادات و تعلقات اور ایران سے برادرانہ تعلقات کے حوالے سے ہر منفی حربہ اپنائیں گے۔ چائلڈ سولجر انکلوژن ایکٹ کی لسٹ میں پاکستان کا نام شامل کیا جانا اس سلسلے کی ہی ایک کڑی ہے جبکہ حقیقت میں ایسا کچھ نہیں ہے اور ہماری وزارت خارجہ اس کی تردید و مذمت کر چکی ہے۔ بقول وزیراعظم لا الہ اللہ غیرت عطاء کرتا ہے اور پاکستانی قوم کے لیے کلمۂ طیبہ ایمان کی بنیاد ہے اس کلمہ طیبہ کی پریوکار ہے۔ افغانستان کی صورحال جس رُخ پر جا رہی ہے اس کے پیش نظر صرف حکومت و ریاست کو ہی بلکہ ہر طبقہ، ہر فرد کو متحد ہو کر ان حالات و اقدامات کیلئے تیار ہونا ہوگا جو گزشتہ چالیس برس کے حالات کے دہرائے جانے سے ملک کو محفوظ کر سکیں۔ اتحاد، اخوت اور جذبۂ حب الوطنی کی زنجیر کی تمام کڑیاں جُڑی ہونگی تو دنیا کی کوئی طاقت پاکستان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی ہے، شرط صرف سبز پرچم کے سائے تلے متحد رہنے اور لا الہ الااللہ پر قائم رہنے کی ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here