فیضان محدث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ
محترم قارئین اہل بیت اطھار رضی اللہ عنہ سے پیار ایمان کا حصہ ہے۔ لیکن کچھ لوگوں نے محبت اہل بیت بغض صحابہ رضی اللہ عنھم سمجھ لیا ہے۔ یہ بہت بڑی گمراہی ہے اور بہت سارے ان میں سے کفر کی حدوں کو بھی پار کر جاتے ہیں۔ یہ بہت نازک موڑ ہے۔ بس اس سلسلہ میں گزارش یہی ہے کہ حضور اعلیٰ حضرت، حضور محدث اعظم پاکستان اور حضور شمس المشائخ رضی اللہ عنھم کے افکار عالیہ کو جب ہم تھام کر رکھیں گے تو رافضیت اور ناصبیت کی حساس لکیریں ہیں۔ ان سے بچ کر اہل سنت وجماعت کے معتدل اور سیدھے راستے پر قائم رہیں گے۔ اس وقت پورے اعتدال کے ساتھ ان بزرگوں کا فیضان قائد ملت اسلامیہ، پیرطریقت، رہبر شریعت صاحبزادہ پیر قاضی محمد فیض رسول رضوی وامت برکاتھم العالیہ تقسیم فرما رہے ہیں۔ جوکہ آستانہ عالیہ محدث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ کے سجادہ نشین ہیں۔ جرأت، غیرت، علم، حکمت اور مسلک کا دردان پہ ناز کرتا ہے۔ باطل ہمیشہ ان سے خوف میں رہتا ہے۔ کیوں نہ ڈرے؟ ان عمل اور بیان ہی صبح وشام یہ ہے۔!
اہل سنت کا ہے بیڑا پار اصحاب حضور
نجم ہیں اور نائو ہے عترت رسول اللہ کی
اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ نے واضح طور پر فرمایا کہ منزل مقصود کا خضول صحابہ اور اہل بیت کی محبت اور ان کے ادب کے بغیر نہیں ہوسکتا ہے۔ ان میں سے کسی کا بغض بھی ایمان کا کباڑا ہے۔ اور نیکیوں کی تباہی ہے۔ چونکہ میرے آقا حضور امام الانبیاء ۖ کے اہل بیت کا مرتبہ نہایت افضل واعلیٰ اور بلند وبالا ہے اور خداوند قدوس ان نفوس قدسیہ کو بڑے بڑے اعزاز واکرام کی سلطنتوں کا تاجدار بنانے والا ہے۔ اس لئے قانون قدرت کا یہی تقاضا ہے کہ ان پاک جانوں کو بھی ضرور ابتلاء و امتحان کی منزلوں سے گزرنا ہوگا۔ اور پھر جتنا بڑا امتحان ہوگا اتنے ہی بڑے انعامات اور اعزازات کے حقدار ٹھہریں گے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ اہل بیت اطھار کے مقدس شہزادوں کو میدان کربلا میں خوف، بھوک، پیاس اور نقصان جان ومال کے ایسے ایسے مصائب کر ب وبلا کے ہوش ربا امتحان سے گزرنا پڑا کہ اگر ہمالیہ کا پہاڑ بھی ہوتا تو اس کا دامن بھی تار تار ہوجاتا مگر واہ رے! ان خاندان نبوت کے شہزادوں کا عزم و استقلال کہ ان مصائب وآلام کے کوہ شکن ہجوم میں بھی صبر واستقامت کا پہاڑ بن کر ڈٹے رہے اور عظیم الشان امتحان میں کامیاب ہوگئے۔ اور خداوندعالم نے ان کو ”شہادت کبریٰ” کا انمول انعام فرمایا اور اعزاز واکرام کی اس بلند منزل پر پہنچا دیا کہ آسمانوں کی بلند رفعتیں اور آفتاب وماہتاب کی عرش نماطلعتیں ان کے قدموں کی گروراہ کو جھک جھک کر سلام کرتی ہیں۔ کیوں نہ ہو؟ کہ یہ وہ نونہالان گلشن نبوت ہیں جن کے خون کے قطرے قطرے میں نبیۖ اور علی رضی اللہ عنہ کا خون شامل ہے۔ اور یہ سب کے سب محبوب خدا کے پیارے، مولیٰ علی کے دلارے اور فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنھا کی آنکھوں کے تارے ہیں۔ اہل بیت اطھار رضی اللہ عنھم کی فضلیت کو بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ترجمہ: اے نبی کے گھر والو! بس خدا یہی چاہتا ہے کہ پلیدی کو تم سے دور رکھے اور تمہیں خوب پاک اور ستھرا رکھے۔ مسلم شریف کی روایت ہے کہ جب یہ آیت سورہ احزاب نازل ہوئی تو صبح کو ایک مقش کالی کملی اوڑھ کر حضورۖ کا شانہ نبوت سے باہر تشریف لائے اور حضرت حسن وحسین اور حضرت فاطمہ اور حضرت علی رضی اللہ عنھم کو اپنی رحمت والی کملی میں داخل فرما لیا اور اپنے دست رحمت کو خداوند قدوس کو بارگاہ عظمت میں اٹھا کر یہ دعا فرمائی کہ اے اللہ! یہ میرے اہل بیت اور میرے مخصو حسین ہیں۔ تو ان سے پلیدی کو دور رکھ اور انہیں خوب پاک اور ستھرا رکھ۔ رحمت عالم کی یہ پیاری دعا سن کر امّ المئومنین حضرت سلمہ رضی اللہ عنھا نے عرض کیا کہ میں بھی ان میں سے ہوں؟ تو ارشاد فرمایا: بے شک تم بہتری پر ہو۔ اور ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ حضورۖ نے فرمایا کہ ”بلیٰ؟ کیوں نہیں؟اور ساتھ ہی ان کو بھی اپنی مقدس کملی میں داخل فرما لیا۔ بہرحال اہل بیت میں یہ مذکورہ نفوس قدسیہ اور تمام ازواج مطھرات رضی اللہ عنھ شامل ہیں۔ سب کی عزت واحترام ہماری ذمہ داری ہے۔ کئی لوگوں نے اہل بیت کے بغض کو صحابہ رضی اللہ عنھم کی محبت سمجھ لیا ہوا ہے۔ وہ بغض اہل بیت میں اتنا اندھے ہوچکے ہیں۔ کہ ساری عمر نبی علیہ السلام آقاومولیٰ کے میلاد کے جلوس اور جلسے کو تو شرک بتاتے رہے لیکن صحابہ کرام علیھم الرضوان غلاموں کی شہادتوں کے جلوس اور جلسے منعقد کر رہے ہیں۔ اور یوم منا رہے ہیں اب کوئی شرک اور بدعت نہیں۔ بس ایسے ناصبیوں سے بچنا بھی بہت ضروری ہے۔ باقی تمام اہل اسلام کو نیا اسلامی سال1446ھ بہت بہت مبارک ہو۔ بدمذہبوں کے شعار سے بچتے رہئے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو فیضان اہل بیت وصحابہ عطا فرمائے۔ رضی اللہ عنھم۔(آمین)۔
٭٭٭٭٭