شیطانی غزائیں!!!

0
46
سید کاظم رضوی
سید کاظم رضوی

محترم قارئین کرام آپکی خدمت میں سید کاظم رضا کا سلام پہنچے گزشتہ مضامین میں جو سلسلہ شروع کیا گیا اور قارئین کی آگاہی کیلئے کس طرح شیطان انسان کے معمولات کو متاثر کرتا ہے کس طرح وہ اہل ایمان کے بچوں ان کی بیگمات اور صاحب خانہ پر تسلط کرتا ہے وہ بشکل انسان نہیں آتا لیکن اس کی کارگزاریاں ہر فیملی ہر طبقہ اور ہر انسان کے ساتھ کارفرما نظر آرہی ہوتی ہے بس چشم بینا کی ضرورت ہے قارئین کا اعتراض جو ایک صاحب نے بالمشافہ فرمایا کہ کاظم صاحب اس کا فائدہ ہی کیا ہوا آپ وقت لگاتے ہیں اور شیطانی غزائوں کے بارے لکھتے ہیں ان کو جواب دیا گیا بھاء آج دل کے دورے کی دوا بن رہی کہا ہاں پوچھا لوگ دورے سے مرنا بند کیوں نہ ہوئے جواب ندارد پوچھا اچھا جب لوگ مرنا بند نہ ہوئے تو دواء بنانا بند ہوء جواب وہ کیوں بس یہی وجہ ہے دنیا ایک خواب ہے ایک کمرہ امتحان ہے جب شیطان اور شیطانی ٹولوں کو آزادی ہے وہ جو چاہیں کریں تو اہل قلم کو بھی اظہار خیال اور اپنی زمہ داری و تبلیغ کی آذادی کا حق دینا انصاف کا تقاضہ ہے امید ہے اس تمہید سے بہت سی گرہیں کھل چکی ہونگیں ایک تو ہوتی ہے حرام خوری ایک ہوتی ہے مفت خوری اور یہ مفت خوری جس کو لگی اس کا اختتام بہت آسانی سے حرام خوری کی جانب کی چلا کیونکہ سوشل تجربات میری عملی زندگی کا حصہ ہیں اس طرف توجہ دیجئیے ہر چند میں پہلے ان تمام مندرجہ زیل فلاحی کاموں کا حامی رہا پھر سوچ بدلی اس کی وجہ آگے بیان کرونگا پہلے بنیادی مسئلہ پڑھئیے جو یہ ہے ۔آج کل فلاحی اداروں کو کوئی نہ کوئی قوت فائنانس کررہی ہوتی ہے۔ یہ بھی اللہ کی رضا کی بجائے شہرت اور نیک نامی کے حصول کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں۔کسی کو اس بات کا ادراک نہیں کہ مفت کے دستر خواں پوری قوم کو حرام خوری کی طرف لے جا رہے ہیں۔اللہ غریق رحمت کرے مولانا ایدھی کی فانڈیشن سے بڑی فلاحی تنظیم پوری دنیا میں کوئی نہیں۔ اگر عوام کو بلاتخصیص مفت کھنا دینا واقعی قوم اور دین کی خدمت ہوتی تو سب سے زیادہ دسترخوان اس فانڈیشن کے ہوتے۔ لیکن مولانا ایدھی نے اصل فلاحی کاموں پر توجہ مرکوز رکھی۔ الخدمت کے فلاحی کام بھی غیر معمولی ہیں لیکن اس نے بھی کبھی اس طرح کے دستر خوان نہیں لگائے۔حلال کی روزی کمانا پہلے ہی مشکل سے مشکل تر بنادیا گیا ہے۔ ان اداروں نے عوام میں رہی سہی حمیت بھی ختم کردی ہے۔ لوگ شروع شروع میں جھجکتے تھے لیکن اب تو دیکھا گیا ہے اچھے خاصے متمول خاندانوں کے لوگ بڑی سہولت سے ان دستر خوانوں سے شکم سیر ہورہے ہوتے ہیں۔کہاوت ہے کہ “مجھے مچھلی نہ دو، مچھلی پکڑنے کا طریقہ سکھادو” اس کہاوت میں بڑا فلسفہ ہے لیکن ہم نے کوئی اچھی بات نہ سمجھنے کی قسم کھا رکھی ہے۔کراچی میں فلاحی اداروں نے فلاحی کام بہت اچھے کیئے ہیں۔لیکن انہوں نے جب مفت دسترخوان شروع کیے تو میرا اعتراض یہی تھا چلنے دو بھوکے کا پیٹ بھرے گا وہ جرم سے باز رہیگا لیکن اسکا بنیادی مسئلہ کہ پہلے مستحق کا تعین کیا جانا چاہیے اور پھر اسے وہی کھانا ملنا چاہیے جو متوسط طبقے کے شہری اپنی حلال کمائی سے کھاتے ہیں۔بھوکے کو مفت میں عام کھانا کھلانا چاہیے، قورمے اور بریانیاں نہیں کہ سفید پوش افراد ان دستر خوانوں کی طرف رجوع کا سوچنے لگیں۔
قوم میں حرام خوروں کی تعداد بتدریج اضافہ ہورہا ہے۔ اللہ اپنا رحم فرمائے اور ھدایت فرمائے بس یہی وجہ تھی کہ جب دیکھا جو اہل نہیں اور خرچہ برداشت کرسکتا ہے پھر بھی مفت میں کھا رہا ہے اب یہ کھانا تو حلال ہے لیکن کھانے والے کیلئے حرام وہ کسی غریب و نادار اور مسکین کا حق کھا رہا ہے افسوس
تو قارئین کرام زمہ دار بنیں جس طرح جہیز کی لعنت پر آپ نے سوچ بدلی جس طرح خواتین پر ظلم و جبر کے معاملے میں ان کو جائیداد سے حق کی بے دخلی ختم کراء ان کیلئے خودکفالت اسکیمیں متعارف کراء اس طرح اس معاملے پر ایک ہوجائیں اور مفت خوروں کو شرم دلائیے تو معاشرہ ایک دن ضرور بدلے گا ۔۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here