I am Back!!!

0
275
جاوید رانا

قارئین محترم! الحمد اللہ یہ خاکسار ایک ماہ کے پاکستان کے قیام کے بعد منگل کو شکاگو پہنچ گیا، امید ہے کہ آپ اپنے پیاروں اور چاہنے والوں کے ہمراہ بخیر ہونگے، پاکستان میں دوران قیام جہاں میں نے فیصل آباد میں اپنے بھائیوں اور دیگر اعزہ و اقرباء کے ہمراہ کافی عرصے بعد بہت اچھا وقت گزارا وہیں اپنے دیرینہ احباب، میڈیا کے ساتھیوں اورسیاسی اشرافیہ کے رہنمائوں و دوستوں سے بھی ملاقاتیں کیں اور ملکی منظر نامے پر بھی تبادلۂ خیال اور آگاہی سے فیضیاب ہوا تاہم اپنے دیرینہ اور محبت کرنے والے ساتھی رانا زاہد کی صاحبزادی کی عروسی تقاریب میں شرکت اور مصروفیت میرے لئے یادگار اور اہمیت کی حامل رہی ہیں رانا زاہد حمید و فیملی کو اس مقدس فریضے کی شاندار ادائیگی اور تقاریب کے بے مثال انعقاد پر دل کی گہرائیوں سے مبارکباد اور نوبیاہتا جوڑے کی پُرمسرت، کامیاب اور دیرینہ ازدواجی زندگی کیلئے دعا گو ہوں۔
پاکستان سے محبت اور دھرتی سے انمٹ تعلق اور اپنی صحافتی جبلت و پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے ناطے پاکستان کے سیاسی، معاشرتی و معاشی حالات کا جائزہ اور ادراک بھی میری مصروفیات میں شامل رہا۔ اپنے مشاہدات اور عوام کے رویوں اور معمولات کو دیکھ کر ایک حقیقت تو یہ سامنے آئی کہ وطن عزیز کے حالات پر دُور دیس پاکستانی جس قدر اپنی فکر واحساس کے حامل ہیں، وطن میں رہنے والے پاکستانی عوام بالخصوص سیاسی حالات و واقعات سے عموماً کوئی سروکار نہیں رکھتے۔ ہم پاکستانی نیوز چینلز پر خبروں اور ٹی وی شوز دیکھ کر وطن سے دور رہ کر بھی ملک کے سیاسی، معاشی و معاشرتی معاملات کے حوالے سے ہلکان ہوتے رہتے ہیں۔ جبکہ وطن عزیز میں عوام کی اکثریت ان چینلز اور شوز کو دیکھنے یا ان نشریات سے صورتحال سے واقفیت کو محض وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں۔
حقیقت تو یہ ہے کہ میرے حالیۂ دورۂ پاکستان نے یہ احساس واثق کر دیا ہے کہ میڈیا ارو سوشل میڈیا کے طاقتور ابلاغ اور سیاسی چمتکاریوں کے گھمسان، معاشی و سیاسی حالات کے اُتار چڑھائو اور طوفانوں سے لوگوں کا کوئی لینا دینا نہیں نہ ہی انہیں سوک سینس اور ضابطوں سے کوئی غرض ہے۔ پنجاب کے دو بڑے شہروں لاہور و فیصل آباد کا میرا بالذات تجربہ یہ ہے کہ عوام کے تمام طبقات، ذاتیات کے محدود دائروں میں اس حد تک محصور ہیں کہ نہ انہیں معاشی بدحالی کی کوئی پرواہ ہے اور نہ ہی انہیں گورننس، ماحولیات اور ضابطوں پر عملداری سے کوئی غرض ہے۔ سیاسی اشرافیہ اور میڈیا کے پیش کردہ دگرگوں حالات کے برعکس ہم نے تو یہ دیکھا کہ غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والے طبقات سے لے کر متمول اور صاحب ثروت افراد تک سب کے معمولات کسی تنگدستی، مجبوری یا محدود وسائل کی نشاندہی نہیں کرتے۔ چھوٹے ڈھابوں سے لے کر 5 اسٹار ہوٹلوں تک رش نظر آتا ہے، کھابے چل رہے ہوتے ہیں، تفریحی سرگرمیاں جاری رہتی ہیں۔ پیسوں والے نئی نویلی چمکتی گاڑیوں میں عیش و نشاط کیلئے دُور دراز ہوٹلوں کا رُخ کرتے ہیں تو دیگر طبقات اپنی اپنی حیثیت کے مطابق رنگ رلیوں سے محظوظ ہو رہے ہوتے ہیں۔ لاء اینڈ آرڈر، شہری اصول و ضوابط کا یہ حال ہے کہ نہ ٹریفک کی پابندیوں پر عمل کیا جاتا ہے اور نہ شہری و اخلاقی ضوابط کی پابندی نظر آتی ہے۔ ٹریفک لائٹ کی خلاف ورزی تو معمول سے حد یہ ہے کہ خواتین اور بچوں کو کراسنگ کرنے میں سخت امتحان سے گزرنا پڑتا ہے۔ بعض اوقات تو اس وجہ سے حادثات بھی پیش آتے ہیں اور جان لیوا ثابت ہوتے ہیں۔ صفائی، ستھرائی، ماحول کی بہتری خواب و خیال ہو چکے ہیں۔ دیکھاجائے تو یہ معاشرتی بگاڑ چند برسوں یا کسی خاص دور کے باعث نہیں ہے بلکہ وقت کے ارتقاء کے باعث بد سے بدتر ہوا ہے یہ صورتحال ان وجوہ کا نتیجہ ہوتی ہے جن میں قومی رہنمائوں، انتظامی ذمہ داروں اور دیگر شعبۂ حیات کے عملداروں کے کردار محض اپنے مفادات کے تابع ہوتے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ معاشرہ ایک قوم نہیں بلکہ انسانوں کا ایسا ریوڑ بن جاتا ہے جس کی کوئی سمت نہیں ہوتی۔
دیکھا جائے تو اس تمام کا بگاڑ وہ قیادتیں اور حکومتیں ہوتی ہیں جن کا ایجنڈہ قومی اور ملکی مفادات پر محض نعرہ بازی اور دعوئوں تک ہوتا ہے، عمل اپنا مستقبل، معیار اور مفاد نیز اقتدار کا تسلسل ہوتا ہے، خواہ اس کیلئے کوئی بھی طریقہ اپنانا پڑے، پاکستان میں کم از کم گزشتہ نصف صدی سے اقتدار اور زر پرستی کا کھیل جاری ہے اور اس کے ثمرات میں وطن عزیز کو کرپشن، عصبیت، جنونیت، بے حسی، رشوت اور نفرت انگیزی کے کڑوے پھل ملے ہیں جو بتدریج ساری قوم کو اپنی لپیٹ میںلے چکے ہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ کسی بھی جسم میں سٹرانڈ دماغ بلکہ اوپر کے دھڑ سے شروع ہوتی ہے۔ وطن عزیز کا جسد بھی اس قدر بدبودار ہو چکا ہے کہ اس کیلئے بہت بڑی سرجری کی ضرورت ہے لیکن یہ سرجری کون کریگا کہ پاکستانی معاشرے میں کوئی شعبہ بھی ایسا نظر نہیں آتا جہاں مرض کی صحیح تشخیص کر کے کوئی طبیب اس ناسور کو ختم کر سکے۔ قوم کے طبیب تو سچے اور کھرے سیاستدان و حکمران ہوتے ہیں لیکن یہاں تو حکمران بھی اغراض، مفادات اور حرص و ہوس کے خطرناک اور ناقابل علاج امراض میں مبتلا ہیں، قوم کا علاج کیا کرینگے؟ بقول ساغر صدیقی!
وہ جن کے ہوتے ہیں خورشید آستینوں میں
انہیں کہیں سے بلائو بڑا اندھیرا ہے
میں معذرت خواہ ہوں، کالم اپنی آمد سے قارئین کو آگاہ کرنے کیلئے شروع کیا تھا لیکن وطن کے حالات دیکھ کر وطن کی محبت میں جذبات کے دھارے میں بہہ گیا مگر یہ محض جذبات نہیں ایک سچائی ہے جو ہر پاکستانی کیلئے فکر و تشویش کی بات ہے اللہ پاکستان اور پاکستانیوں کی حفاظت کرے اور ہمارے اکابرین کو راست عمل کی توفیق عطاء کرے۔ آمین۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here