محرم الحرام کا آغاز ہو چکا ہے، اسلامی کیلنڈر کے حوالے سے یہ سال کا پہلا مہینہ ہے، نہایت متبرک و محترم، ارشادات ربانی کے حوالے سے بارہ مہینوں میں سے جن چار مہینوں کو خصوصی حُرمت اور تقدس والے قرار دیا گیا ہے ان میں بھی اس ماہ کو بالاتفاق پہلا قرار دیا گیا ہے۔ مسلم شریف کی ایک روایت میں اس ماہ کے شرف کی وجہ سے اسے اللہ کا مہینہ (شہر اللہ) کہا گیا ہے۔ حضرت آدم کے یوم ولادت سے یوم وقوع قیامت تک متعدد انسانی واقعات اس ماہ سے منسوب ہیں۔ احادیث کے مطابق رمضان المبارک کے بعد اس مہینے کے روزے سب سے افضل ہیں۔ آقائے نامدار حضرت محمدۖ 10 محرم کا روزہ بالخصوص رکھا کرتے تھے اور اس کی توضیح عبداللہ بن عباس کی روایت کے مطابق حضرت موسیٰ اور بنی اسرائیل کی فرعون کے ظلم سے نجات اور فرعون کی غرقابی تھی اور اس دن حضرت موسیٰ نے تشکر کیلئے روزہ رکھا تھا۔ محبوب ربۖ کا ارشاد مبارک ”پھر ہم اس کے تم سب سے زیادہ حقدار اور حضرت موسیٰ کے زیادہ قریب ہیں” اس صداقت کا واضح اعلان تھا کہ ظلم کی موت رب تعالیٰ کی مشیت ہے اور ظلم کیخلاف ہے۔ میرے نبی اکرمۖ کا ہر ارشاد مبارک اللہ رب العزت کا پیام اور تا قیامت واقعات کی پیش بینی ہے۔ فرعونیت کی بربادی کیساتھ متذکرہ بالا ارشاد مبارک حسینیت کی بالادستی اور یزیدیت کی تباہی و گمنامی کا فرمان تھا کہ حسینیت تا قیامت سرفراز و فاتح رہے گی اور یزیدیت کیلئے فناء و ذلت مقدر ہے۔ تاریخ اس حقیقت کی شاہد ہے۔
عالم اُفق پر فرعونیت اور یزیدیت کے مظاہر و انجام کی تفصیلات میں جائے بغیر ہم صرف یہ کہہ سکتے ہیں کہ دین مبین سے وابستہ ممالک، قائدین و معاشرے بھی فرعونیت و یزیدیت کے نفرت انگیز ترین اثرات سے نہیں بچے ہیں اور اپنی غرض، مفاد پرستی اور برتری کے زعم میں ہر وہ اقدام و طریقہ اپنائے ہوئے ہیں جو یزیدیت کے زمرے میں ہی نہیں آتے بلکہ دین مبین کے احکامات اور انسانیت کے بھی برخلاف ہیں۔ وطن عزیز پاکستان کی صورتحال یوں تو 7 عشروں سے کبھی بھی اچھی نہیں رہی لیکن موجودہ حالات تو وطن، عوام، ریاست، حکومت، عدالت، معیشت، معاشرت، انسانیت، جمہوریت حتیٰ کہ شہریت کے ناطے سے جبر، مظالم، بربریت اور لاقانونیت کا بھرپور نفرت انگیز نقشہ پیش کر رہے ہیں۔ اس وقت کے فرعونوں اور یزیدوں نے عوام پر مہنگائی اور ٹیکسوں کے طوفان سے انہیں آب و دانہ اور زندگی کی سہولتوں سے محروم کرکے کرو بلا کا اعادہ کیا ہے تو ظلم و بربریت، لاقانونیت اور جمہوریت کا جنازہ نکال کر فرعونیت کا نقشہ پیش کیا ہوا ہے۔ آج صورتحال یہ ہے کہ وقت کے حاکم نے عوام اور جمہوریت کے مفادات کو بالائے طاق رکھ کر نعوذ باللہ وہ تمام حربے اور غیر انسانی اقدامات رکھے ہوئے ہیں جو نہ اللہ اور دین مبین کے احکامات کے مطابق ہیں اور نہ انسانیت، انصاف و قانون کی فضٰلیت کو تسلیم کرنے کے مترادف ہیں۔ حقوق کی آزادی عوام کی حاکمیت اور حقیقی و جمہوری آزادی کی جدوجہد کی پاداش میں جو ظلم و ستم اور طریقے اختار کئے جا رہے ہیں خصوصاً مقید خواتین کو چلچلاتی گرمیوں میں قیدیوں کی وین میں رکھا جا رہا ہے اور 24,24 گھنٹے بھوکا پیاسا رکھ کر اذیتیں دی جا رہی ہیں، کیا یہ یزیدیت کا اعادہ نہیں کہ جس کا مظاہرہ یزید لعین نے میدان کرب و بلا میں کیا تھا۔ افسوس تو یہ بھی ہے کہ انصاف و آئین کی ذمہ دار عدلیہ کے امور میں مداخلت و زور زبردستی کے ذریعے نفاق و اختلاف پیدا کر کے اپنی کٹھ پتلی حکومت اور پالتو سوشل میڈیا کے ذریعے ان منصفوں کی پگڑیاں اُچھالی جا رہی ہیں جو فرعونیت کے تابع رہنے پر تیار نہیں اور حق و انصاف پر اپنے فیصلے کرنا چاہتے ہیں۔
اس کی تازہ ترین مثال اسلام آباد ہائیکورٹ کے سینیئر جج طارق محمود جہانگیری کی ہے جن کیخلاف پالتو سوشل میڈیا کے ذریعے ان کی ذات، اہلیت، حتیٰ کہ ان کی ڈگری کے حوالے سے طوفان اُٹھایا جا رہا ہے۔ ان کی خطا یہ ہے کہ وہ اسلام آباد کے تین حلقوں سے انتخابی حلقوں کے تنائج کیخلاف اپیلوں کے ٹریبونل جج اور میرٹ پر کارروائی کر رہے ہیں۔ بات محض اس حد تک نہیں، اپنی فرعونیت برقرار رکھنے کیلئے اس قدر دبائو اور دخل اندازی کا عملی مظاہرہ کیا جا رہا ہے کہ جونیئر عدلیہ تو کیا ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ بھی منقسم ہو چکی ہے۔ ہماری تحقیق کے مطابق مخصوص نشستوں کے کیس میں تو چیف جسٹس ایک طرف جھکائو رکھتے ہیں جبکہ بنچ کے باقی ارکان کا رحجان دوسری جانب ہے، ہماری سوچ تو یہ ہے کہ اس تمام صورتحال کے پیچھے بھی فرعونیت کی وہ سوچ متحرک ہے جو عوام کے حق اور جمہوریت کے برعکس اپنی برتری اور حاکمیت کے تسلسل پر بضد ہے اور عوام کی رائے و مقبولیت کی حامل قیادت کو محروم کر کے فاشزم اور آمریت قائم رکھنا چاہتی ہے۔ یاد رہے کہ یہی سب کچھ حسینی لشکر کیساتھ یزیدیوں نے کیا تھا لیکن آج یزیدیت نفرت و تحقیر کا استعارہ ہے اور حسینیت فتح و نصرت کا مینارہ نور ہے کہ خدائے بزرگ و برتر کا فرمان ظلم کرنے والوں کا برا انجام ہے۔
٭٭٭