ستائیس سالہ نور مقدم پاکستانی سفارتکار شوکت مقدم کی صاحبزادی جوکہ اپنے والد کے امان اردن میں بطور سفارتکار ملازمت کے دوران 23اکتوبر1993ء کو پیدا ہوئیں تھیں۔شوکت مقدم صاحب جنوربی کوریا اور قازقستان میں پاکستان کے سفیر رہ چکے ہیں۔اس کے علاوہ بھی مقدم خاندان آئرلینڈمیں بھی کچھ وقت کیلئے رہائش پذیر رہے جبکہ سفاک قاتل کا خاندان بھی پاکستان کا ایک جانا پہچانا خاندان ہے۔اسلام آباد کے رہنے والے70ء کی دہائی سے کمپیوٹر اور اسی قسم کی دوسری اشیاء کا کاروبار کرنے والے جعفر بردارز کے نام سے بخوبی واقف رہے ہیں اس خاندان نے کاروبار میں خوب ترقی کی اور اب انکا شمار اسلام آباد کے چند امیر ترین خاندانوں میں ہوتا ہے۔ان دونوں خاندانوں کے گہرے مراسم بھی رہے۔قاتل ظاہر جعفر جعفر بردارز کی داغ بیل ڈالنے والے صاحب کا پوتا ہے جوکہ امریکا اور پاکستان کی دوہری شہریت کا حامل ہے۔اسلام آباد میں ذہنی علاج کا ایک ہسپتال یا کلینک بھی چلاتا رہا ہے اور جوکہ خود ایک نفسیاتی مریض ہے جسکے خلاف اس کے مریضوں نے پولیس میں درخواستیں دے رکھی تھیں کہ وہ اپنے مریضوں پر جسمانی تشدد کرتا رہا ہے لیکن کیونکہ یہ مریض کوئی اعلیٰ سماجی حیثیت نہیں رکھتے تھے اور ظاہر جعفر ایک امیر خاندان کا چشم وچراغ تھا۔کوئی پولیس رپورٹ اس کا بال بھی بیکانہ کرسکی نور اور ظاہر کے آپس میں خاندانی مراسم کے علاوہ ذاتی مراسم بھی تھے جسکی وجہ سے یہ ایک دوسرے سے ملتے رہتے تھے۔18جولائی2021کو رات9:05بجے ظاہر نے نور کو فون پر بتایا کہ وہ19جولائی کو صبح3:05کی فلائیٹ سے نیویارک جارہا ہے اور اس سے کسی ضروری معاملے پر بات کرنی ہے اسلئے وہ اسکے والد کے گھرF7/4میں آجائے یہ گھر ملزم ظاہر کے والد ذاکر جعفر اور والدہ عصمت جعفر کی ملکیت ہے۔نور کچھ ہی دیر میں انکے گھر پہنچ گئی۔انکی کچھ دیر وہیں پر بات حیت ہوئی پھر ایک ٹیکسی گاڑی منگوائی گئی جو کہ پہلے سے بک تھی تاکہ ظاہر کو صبح تین بجے اسلام آباد کے ہوائی اڈہ سے نیویارک کی فلائیٹ کیلئے ڈراپ کیا جائے۔لیکن آخری وقت پر ظاہر نے نور سے کہا کہ مجھے ایئرپورٹ تک چھوڑ دو۔اس دوران بقول ٹیکسی ڈرائیور کے نور بالکل خاموشی رہی لیکن ظاہر(ملزمہ) نور سے کچھ کہتا رہا بالکل مسلسل بولتا رہا۔اچانک ملزم نے ٹیکسی ڈرائیور سے واپس چلنے کا مطالبہ کیا ڈرائیور کے وجہ پوچھنے پر جواب دیا کہ اب بہت دیر ہوگئی ہے مجھے فلائیٹ نہیں ملے گی۔آدھے راستے میں واپس پھر جعفر خاندان کے گھر پہنچ گئے اس دوران نور کے والدین کے مسلسل فون اور پیغامات آتے رہے لیکن ملزم نے نور کو جواب نہیں دینے دیا، آگے چل کر فون ملزم نے قبضہ میں لے لیا اور پھر ملزمہ نے مقتولہ کی والدہ کو فون کیا اور کہا نور میرے گھر نہیں ہے۔نہ میرے پاس ہے جب کہ ماں کا لاڈلہ ظاہر اپنی ماں ماہر نفسیات عصمت جعفر خود ایک امیر ترین خاندان کی بیٹی ہیں جن کا شمار ایوب خان کے زمانے کے22خاندانوں میں ہوتا تھا۔اس واقعہ کے دوران کئی مرتبہ بات چیت کرتا رہی۔ظاہر کوکین کے نشے میں دھت اپنی والدہ کو بار بار کہتا رہا کہ ماں نور نے مجھ سے شادی کرنے سے انکار کردیا ہے۔دراصل مقتولہ کو اندازہ ہوگیا تھا کہ قاتل نشہ کا عادی ہوگیا ہے اسلئے اس نے اپنا حق استعمال کرتے ہوئے اپنا راستہ قاتل سے الگ کرنے کا سوچ لیا تھا یہ بات نشہ میں ڈوبے ہوئے امیر زادے سے ہضم نہیں ہوئی اور پہلے تو اپنے والدہ اور والد کو شکایت کرتا رہا والد کو تو اندازہ ہوگیا تھا کہ بیٹا نشہ میں دھت ہے اور بکواس کر رہا ہے لیکن والدہ جس کے لاڈ وپیار نے بیٹے کو پاگل پن کی حدوں تک پہنچایا ہوا تھا اس نے نہ صرف خوب تسلیاں دیں بلکہ بیٹے کو مجرم بننے کے بعد قانون کے شکنجہ سے چھڑانے کو اپنا مشن بنا دیا اور پہلے فون پر اپنے بااثر دوستوں کو منتیں ترلے کرتی رہیں پھر اسلام آباد پہنچ کر عصمت جعفر نے ان بااثر حلقوں سے بات چیت کی بلمشافہ تاکہ وہ اپنے اثرورسوخ کے ذریعے اس کے بچے کو بچا لیں۔کوئی اس بدبخت ماں سے پوچھے نور کی ماں نے کیا قصور کیا تھا جس بے قصور سے اس کا لخت جگر چھین لیا۔دولت کے ریل پیل میں تم نے بیجا لاڈ اور بے تحاشہ دولت دیکر اپنی اولاد کی نسوں میں زہر بھر دیا اور اب جب اس وحشی اولاد نے کسی کی بے قصور بیٹی کو مار کر اسکی گردن دھڑ سے الگ کر دی تو اپنے ناخلف بیٹے کے لئے رحم کی بھیک مانگتی پھر رہی ہو تاکہ نور کے والدین کو انصاف نہیں مل سکے۔یہ سبق آموز وحشیانہ قتل تمام دولتمند والدین کی آنکھیں کھولنےEYE OPENINGوالا واقعہ ہوسکتا ہے کہ دولت کی بارش اولاد کو سدھار تو نہیں سکتی اولاد کو انسان میں سے جانور بنا دیتی ہے۔خصوصاً ان مائوں کو سیکھنا چاہئے کہ بیجا لاڈ اور پیار اولاد کیلئے پھر قاتل ہے یہ پیار نہیں ہے اپنی اولاد کو کوئیںVALUESدیں دوسروں کی عزت اور دوسروں سے ہمدردی کا سبق دیں اللہ پاک ہماری اولاد کو بہتر انسان بننے کی توفیق دے۔