قارئین وطن! سال ہوتے ہیں ستمبر کو سینٹ انتھونی ہائی اسکول کی گرائونڈ میں ہم دس بارہ لڑکے اپنے پی ٹی ماسٹر صوبیدار میجر صادق صاحب کے گرد کھڑے ان سے پاکستان پر بھارتی حملے کے بارے میں خیالات پوچھ رہے تھے ،مجھے یاد ہے کہ صبح کے گیارہ بجے تھے جب ہندوستانی جہاز نے کہیں دور بم گرایا تھا ،ایسا لگا کے ہمارے قریب پھٹا ہے، ماسٹر صاحب بتا رہے تھے کہ اب وہ اپنی فوجی ڈیوٹی پر واپس جائیں گے اور اپنے وطن کے لئے لڑیں گے ،ابھی بچوں کے سوال جواب کا سلسلہ جاری تھا کہ آدھ گھنٹے کے وقفہ سے غالبا ساڑے گیارہ بجے ہوں گے کہ ایک اور زور دار دھماکہ ہوا جب بھی ستمبر کا دن آتا ہے ان بمبوں کی آواز کانوں میں گونجتی ہے اور میرا جذبہ اسی طرح جواں ہو جاتا ہے بس دوسرے دھماکے کے بعد ہم سب نے ماسٹر صاحب کو اپنے ننھے ہاتھوں سے سلوٹ مارا اور انہوں نے ہم سب سے ہاتھ ملایا اور وہ چھوٹی سی گپ شپ کی محفل برخواست ہوگئی ۔
قارئین وطن! میرا گھر میرے سکول سے کوئی قدم پر تھا جب میں گھر پہنچا تو محلے کے بچوں کے ساتھ مل کر ہم نے خندقیں کھودنی شروع کر دی ہیں، اتنے میں کوئینز روڈ کی جانب سے فوجی ٹرک گزرنے کی آوازیں آنا شروع ہو گئیں اور فلک شگاف اللہ اکبر کے نعروں کی گونج نے ہم سب کو اپنی طرف کھینچا میرا گھر کوئینز روڈ پر تھوڑی دور وارث روڈ سے تھا جہاں ایک فوجی چھائونی تھی اور یہ فوج کے ٹرک وہاں سے نکل کر واہگہ باڈر کی طرف جا رہے تھے ہم سب بچوں نے بھی ان کے نعروں کی آواز میں اپنی چھوٹی چھوٹی آواز ملانا شروع کر دی ،ہماری بیچارگی کا عالم یہ تھا کہ ہم صرف نعرہ تکبیر اللہ اکبر لگا سکتے تھے جبکہ دل تو یہ تھا کہ ہم سب اپنے فوجیوں کے قدم سے قدم ملا کر ہندوئوں سے لڑیں جیسے جیسے ٹرک ہمارے سامنے سے گزر رہے تھے، ہمارا جذبہ جہاد ایک آلا کی طرح بھڑک رہا تھا،آخری ٹرک تک ہم لوگ کھڑے رہے اور نعرے لگاتے رہے،گھر پہنچے تو فیلڈ مارشل ایوب خان کی دل دھلا دینے والی تقریر سنی جس نے مشرقی اور مغربی پاکستان کے ہر شہری کو پاکستانیت کی لڑی میں پرو دیا،جب ہم سب بچے اپنے چھوٹے چھوٹے وجود کے اندر فوجی بنے ہندوں کو للکار رہے تھے کہ میرے والد مرحوم سردار ظفراللہ اللہ ان کی مغفرت فرمائے دفتر سے واپس آئے تو ہم نے ان کو گھیر لیا میرا پہلا سوال ان سے یہ تھا کہ ڈیڈی بھارت نے پاکستان پر حملہ کر دیا ہے آپ اب بھی ایوب خان کے خلاف ہیں انہوں نے جواب دیا جو مجھے سالوں کے بعد بھی یاد ہے کہ نہیں اب ہم اس کے ساتھ ہیں – دن کی اس جنگ کا اپنے جوانوں کی قربانیوں کا ایک ایک واقعہ میرے ذہن میں آج بھی نقش ہے کہ کیسے میجر عزیز بھٹی اور ان کے جوانوں نے ہندوں کے عزائم خاک میں ملا دئیے ان کی امیدوں پر کے وہ دوپہر کا لنچ جم خانہ کلب میں کھائیں گے اور رات کا کھانا فلیٹیز ہوٹل میں دل تو آج بھی پاک فوج زندہ باد کہتا ہے لیکن ہمارے فٹ انچ کے جرنل ایوب خان نے تاشقند میں کیا گند گھولا اب قصہ پارینہ ہے ۔
قارئین وطن ! اب نہ وہ ملک رہ گیا ہے نہ وہ لوگ عین پانچ سال بعد مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا مغربی حصہ پاکستان تو بن گیا کروڑ کی آبادی سے تقریبا کروڑ آبادی ہو گء ہے سال ہوگئے مغرب مشرق کی علیحدگی کو لیکن نہ ڈھنگ کا سیاستدان ملا جو ملک کو آگے لے کر چلتا ، نہ عدلیہ اپنا وقار قائم کرسکی اور نہ ہی ہمیں کوئی میر سپاہ ملا جو قوم کو جزبہ آزادی کی جانب گامزن کرتا سب نے اپنی اپنی ڈفلی بجائی اور اپنی خود غرضانہ ظرورتوں کو پورا کرنے کے لئے چور ڈاکو اور لٹیرے سیاسی کردار براجمان کرتے رہے – اور ہوتے رہے – عزیزانِ سیاست نے وطن عزیز کی سالہ زندگی میں عمران خان نیازی کی شکل میں قائید اعظم محمد علی جناح کے خوابوں کی تکمیل کا عزم لے کر اٹھا دیکھا جس نے ہمیں بیرونی اور اندرونی دشمنوں سے پاکستان کی تقدیر سنوانے کا مشن لے کر نکلا ہے لیکن امریکہ کی سازشوں سے اس جری کے راستے میں کیسے کیسے کانٹے بچھائے گئے ہیں اور اس ساری سازشوں اور سازشیوں کی سرپرستی کوئی غیر نہیں اپنا میر سپاہ قمر باجوہ ہے – لیکن باجوہ صاحب یہ بھول گئے ہیں کہ پاکستان کی کروڑ عوام عمران خان کی قیادت میں جاگ گء ہے اور ہر پاکستانی کا قدم آزادی کی جانب اٹھ رہا ہے پاکستان کو لوٹنے ولے سپہ سلاروں ، بونے سیاستدانوں ، عدلیہ کے پروانوں جتنی مرضی دولت لوٹ لو بقول شاعر !
کتنے منعم جہاں سے گزرے وقت رحلت کس کنے زر تھا
آخرِ وقت جب وہ جہاں سے گزرا ہاتھ خالی کفن سے باہر تھا
کاش اپنے اقتدار کو سازشوں اور غداریوں کے ملمعہ سازیوں سے نکھارنے والے اوپر شعر کو پڑھیں اور سمجھیں،کیسے کیسے خاندان قبرستانوں میں دفن ہیں نہ کوئی پھول چڑھانے والا ہے نہ کوئی فاتح پڑھنے والا ،،قوم نے آزادی کی راہ دیکھ لی ہے اور اپنا رہبر بھی جرنل صاحب نہ آپ نہ عدلیہ نہ بونے اب عمران خان کے سفر کو روک سکتی ہے،اب نئی نسل جاگ گئی ہے جب عمران طالبعلموں کو جگانے کی کوشش کرتا ہے تو مجھ کو پاکستان بنانے والے نوجوان نظر آتے ہیں ،جرنل صاحب چھ ستمبر کی قربانیوں کو خدارا مت امریکہ اور بونوں کے قدموں تلے رونددیں ،پاکستان کی ہر وردی کو سلام بری ،بحری، فضائی سب کو سلام چھ ستمبر کے ایک بچے کا سلام۔
٭٭٭