پاکستانی زراعت کو خطرات لاحق!!!

0
159
رمضان رانا
رمضان رانا

ویسے تو پاکستان میں انگریزوں کا مسلط کردہ جاگیرداری وڈیرہ گری اور غیر حاضر زمینداری نے ملکی زراعت کو تباہ وبرباد کر رکھا ہے۔جو دنیا کی پسماندہ زراعت پر اپنائے ہوئے ہیں جس میں کسان بنیادی اور متضارع اپنی تمام تر دن رات کی محنت ومشقت کے باوجود راتوں کو بھوکا سوتا ہے جبکہ خدا تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ میری زمین ہے جس کا ہر انسان، حیوان چرند پرند فائدہ اُٹھائے گا جس کا نائب انسان کو نامزد کیا ہے جو تمام کی دیکھ بھال کرے پھر ایک کو برابر کا فائدہ پہنچے۔تمام وسائل کو ہر انسان کو برابر کا شریک کرے جو کس نظر آرہا ہے تاہم پاکستان میں لینڈ مافیا اور قبضہ گیر زرعی زمینوں کو شہری آبادیوں میں تبدیل کرنے میں پیش پیش ہیں جس میں عسکری ادارے سرکاری ادارے اور نجی ادارے شامل ہیں جس میں ہر بڑے شہروں میں بحریہ ٹائون ڈیفنس سوسائٹیوں، عسکری پروجیکٹوں، نئی نئی کالونیوں اور رہائشی پروجیکٹوں کی بھرمار نے پاکستانی زراعت کو خطرات لاحق کردیئے ہیں۔جو دن بدن زرعی زمینوں کو رہائشی آلائٹوں، پلاٹوں، بنگلوں اور کوٹھیوں اور مکانوں میں بدل رہے ہیں جس سے پاکستان کی 22کروڑ عوام کو کھانے پینے کی اشیائے سے محروم کیا جارہا ہے۔وہ ملک جو زرعی ملک کہلاتا تھا وہ اب دانے دانے کو محتاج ہو رہا ہے۔جس کی زراعت ناقص اوپر سے زرعی زمینوں کو رہائشی زمینوں میں برلن پاکستانی عوام کو مزید بھوکے مارنے کے مترادف ہے۔بہرکیف پچھلے دنوں زرعی زمینوں کے خلاف سرکاری اور عسکری اداروں کے کردار کو دیکھ کر اہل وطن کو رنج ہوا، جب لاہور ہائیکورٹ نے راوی ریور نامی سرکاری پراجیکٹ کے خلاف فیصلہ دیا کہ جس میں دریائے راوی کو بند کرنا اور زراعت کو نقصان پہنچانا تھاتو سپریم کورٹ کے بعض ججوں نے عجلت میں ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف فیصلہ دے کر زرعی زمینوں کی لوٹ مار کا سرٹیفکیٹ دے دیا جو قدرت کے چاہنے والوں پر گراں گزرا۔دوسرا سانحہ ملتان میں ڈیفنس سوسائٹی کے نام پر چھ ایکڑوں پر مشتمل ایک لاکھ آموں کے درختوں کو کاٹ ڈالا جن کو دادا نے بویا تھا۔اب پوتا کاٹ رہا تھا ،یہ سب کچھ پاکستان کے کروڑ اور ارب پتیوں کے لئے کیا جارہا ہے کہ آج شہروں اور یہادتوں کی آبادی برابر برابر ہونے جارہی ہے جس کی زراعت ختم ہو رہی ہے۔علاوہ ازیں پاکستان میں شہروں میں آبادی کا اضافے اچھا سائن نہیں ہے جو صنعتی اور تجارتی مقامات نہیں ہیں جن کا سب سے بڑا روزگار زراعت ہے جو آہستہ آہستہ چھینا جارہا ہے۔ظاہر ہے جب لوگ زراعت کی محرومی سے تنگ آکر شہروں کی طرف رخ کریں گے جو پہلے بھی ملوں، فیکٹریوں، تجارتی مرکزوں اور کاروباری دھندوں کی بجائے صرف اور صرف رہائشی کاروبار پر گزارہ کر رہے ہیں تو پاکستان کی کروڑوں کی آبادی کا کیا ہوگا۔ظاہر ہے کسانوں کو کاشتکاری سے محروم کرنا زراعت کونقصان پہنچانا۔زرعی زمینوں کو رہائشی زمینوں میں بدلنے سے پاکستان کی75فیصد آبادی کا کیا ہوگا۔جس سے دیہی آبادی شہروں میں بدلی جارہی ہے۔جو ایک دن کھنڈرات میں بدل جائیں گے جن کا انحصار زراعت پر ہے یہاں انڈسٹری نام کی کوئی شہ نہیں ہے۔لہذا یہ تمام زمینوں کی لوٹ مار اور مار دھاڑ پاکستان کو مکمل طور صفحہ ہستی سے مٹانے کی کوشش ہے جس پر بد کرداروں، بداعمالوں، چوروں، ڈاکوئوں جاگیرداروں، وڈیروں، سرداروں رسہ گیروں کا قبضہ ہے جو خرص ولالچ میں پاکستان کی واحد وسائل زراعت پر ڈاکہ زن ہیں۔کہ آج لاہور، کراچی، پشاور، کوئٹہ، گوجرانوالہ، ملتان، سیالکوٹ، فیصل آباد، حیدرآباد، پنڈی، سکھر اور دوسرے تمام بڑے شہر سینکڑوں میلوں میں پھیل چکے ہیں۔جن کی زد میں لاکھوں ایکڑ زرعی زمین آچکی ہے یہاں اب فیصلوں کی بجائے دھواں اٹھ رہا ہے کہ شہریوں کے چہرے دیکھنا اور پہنچنا مشکل ہوچکا ہے۔کہتے ہیں کہ جو شخص کسی درخت کی شاخ پر بیٹھ کر ٹہنی کاٹتا ہے وہ زمین پر دھڑام گرتا ہے جو آج پاکستان میں زرعی زمینوں کے ساتھ ہو رہا ہے۔جو مستقل کھانے پینے سے محتاجی کا عمل ہے جس کو سرکاری اور غیر سرکاری طور پر اپنایا جارہا ہے۔وہ شخص عمران خان جو کل تک اپنی حسب عادت لن ترانیوں میں فرمایا کرتا تھا کہ شہروں کی آبادی پر قابو پانے کے لیے تمام بڑے شہروں میں اونچی اونچی رہائشی اور تجارتی عمارتیں تعمیر کی جائیں وہ بھی آج راوی ریور نامی نئے نئے شہروں کی آبادکاری میں پیش پیش ہیں۔جس سے زراعت کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔یہ جانتے ہوئے کہ اول راوی ایک دریا ہے جس کا سودا جنرل ایوب خان نے کیا تھا جو کل کلاں بھارت سے مذاکرات سے واپس مل سکتا ہے۔دوئم بھارت جب چاہے پانی چھوڑ کر راوی شہر کو ڈبو سکتا ہے۔سوئم خشک راوی ریور کو جیلوں میں بدل دو یہاں موسم برسات میں پانی کے ذخائر جمع کیے جاسکتے ہیں۔بحرحال پاکستان ایک زرعی ملک کو کھنڈرات میں بدلا جارہا ہے۔جس کی پوری سرمایہ کاری بھی بیرون ملک منتقل ہوچکی ہے۔جس کا واحد وسیلہ ناقص زراعت ہے جس کو بچانا نہایت ضروری ہے۔لہٰذا پاکستان کے تمام بڑے شہروں کو اونچی اونچی عمارتوں میں بدلنا ہوگا تاکہ پاکستانی شہریوں کو محدود اور مختص علاقوں میں بسایا جائے جس طرح ماضی میں کراچی میں کھارا در مٹھا در اور دوسرے علاقوں میں تین چار منزلوں کی طرح فلیٹوں کی تعمیرات کا سلسلہ چلا تھا جو اب بنگلوں، کوٹھیوں مکانوں میں بدل چکا ہے جس میں لینڈ مافیائوں، بحریہ ٹائون، عسکری ٹائون کا قبضہ ہے یہاں بعض علاقوں میں پانی پینے تک دستیاب نہیں ہے۔جس سے واٹر ٹینکر مافیا نے جنم لیا جنہوں نے کراچی کو کربلا کا مقام بنا ڈالا ہے،لہٰذا پاکستان کے شہروں کو محدود کیا جائے ورنہ لاہور میں گوجرانوالہ، شیخوپورہ، فیصل آباد، کراچی، حیدرآباد، سکھر، راولپنڈی میں اسلام آباد ضم ہوجائیں گے کہ شہروں کے جغرافیہ ڈھونڈنا مشکل ہوجائے گا۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here