حقیر نہ جانئے!!!

0
76
رعنا کوثر
رعنا کوثر

زندگی میں ہمیں مختلف لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ان میں سے کچھ ہم سے برتر ہوتے ہیں اور کچھ ہم سے کسی معاملہ میں کم ہوتے ہیں۔جنہیں ہم کمتر سمجھتے ہیں جو ہم سے عہدے میں شکل میں یاعزت اور مرتبے میں زیادہ ہوتے ہیں ہم ان کو بہت عزت دیتے ہیں، یہ ایک قدرتی بات ہے کے اگر تعلیم یافتہ باعزت فیملی کا کوئی انسان ہم کو ملے گا تو ہم اس کو دوست بنانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔اسی کا تعارف بہت محبت اور پیار سے اپنے جاننے والوں سے کراتے ہیں۔اس کو اپنی تقریبات میں اصرار کرکے بلاتے ہیں۔اور بہت عزت افزائی کرتے ہیں۔یہاں تک تو بہت اچھی بات لگتی ہے کے ہم کسی کی تعلیم خاندان، عہدے اور رتبے کا خیال کرکے اس کو عزت دیتے ہیں۔اگر اس میں ذہانت اور محبت شامل ہو کسی کی محنت کی پذیرائی ہو تو اور بھی اچھی بات ہے مگر اس میں اپنا کوئی فائدہ حاصل کرنا ہو تو یہ خود غرضی کہلاتی ہے۔مگر وہ لوگ جو بغیر اپنا کچھ فائدہ سوچے ایسے لوگوں کی عزت کرتے ہیں وہ ا چھے نیک اور بے غرض لوگ ہیں۔
مگر ایک عجیب بات ان اچھے لوگوں کی بھی سرشیت میں شامل ہوتی ہے۔کے وہ کسی بھی ایسے شخص کو حقیر جانتے ہیں۔جو ان سے کسی وجہ سے کم ہو۔مثلاً رنگ ونسل میں، عہدے میں، تعلیم میں، علم میں، مذہبی امور کو ادا کرنے میں ان سے کم ہے تو ان کو بہت برُا لگتا ہے۔وہ سوچتے ہیں کے یہ وہ کیوں نہیں کر رہا جوکہ ایک اچھے اور عزت دار آدمی کو کرنا چاہئے۔وہ اسے وہ عزت نہیں دیتے جوکہ ایک عام آدمی کا حق ہے اور اسے حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں اور یہی مفادات کی نظر کسی بھی انسان کے لیے بہت تکلیف کا باعث ہوتی ہے۔اگر کوئی کسی بھی وجہ سے ہم سے مطابقت نہیں رکھتا تو بجائے اس کو حقیر سمجھنے کے ،اس سے اچھا سلوک رکھیں،اس کو بے شک اپنا دوست نہ بنائیں مگر اس کو ایسی نظروں سے بھی نہ دیکھیں یا ایسے الفاظ سے نہ نوازیں جو اس کو محسوس کرا دے کے آپ تو کچھ بھی نہیں۔آپ ہماری محفل میں کیوں آگئے۔آپ ہمارے برابر میں کیوں بیٹھ گئے۔حد تو یہ ہے کے وہ لوگ جو نیکیاں کر رہے ہوتے ہیں۔جب نماز پڑھتے ہیں تو ان لوگوں کو جو نماز نہیں پڑھتے حقارات کی نظر سے دیکھنے لگتے ہیں جو روزہ نہیں رکھتے ان کو بھی ایسی باتوں سے نوازا جاتا ہے۔کے وہ جھوٹ بول کر اپنی جان چھڑاتے ہیں کہ ہم روزہ دار ہیں۔جو حجاب پہننے والے ہیں وہ بے حجابیوں کو کم سمجھنے لگتے ہیں جو حجاب نہیں پہنتے وہ ایسی عورت کو جو حجاب پہن کر یا سر پہ دوپٹہ لے کر ان کی محفل میں شامل ہوجائے،ان سے کترانے لگتے ہیںاگر لڑکا کسی ایسی لڑکی سے شادی کرے جو بے شک عادات واخلاق کی اچھی ہے مگر ہم سے کم گھبرانے کی ہے۔یا رنگ ونسل میں ہم سے مختلف ہے تو ہم کبھی اسے عزت نہیں دے پاتے اس کی کوئی خوبی نظر نہیں آتی۔یہ بہت عام سی باتیں ہیں، ہماری نظر میں جو حقیر ہوگیا وہ ہوگیا۔ہم چاہے اب خود کتنے بھی قرآن پڑھ لیں۔روزے رکھ لیں ،نمازیں پڑھ لیں ہمارے دل سے دوسرے انسان کی کم مائیگی ختم نہیں ہوتی یوں ہی جھگڑے بڑھتے ہیں۔لوگ ایک دوسرے سے نفرت کرنے لگتے ہیں کوئی بھی انسان اپنے آپ کو حقیر نہیں سمجھتا اس لیے کسی کو حقیر نہ جانیں۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here