ہفتہ رفتہ یوں تو پاکستان کی سیاست اور عالمی منظر نامے میں امریکہ و روس کے مابین یوکرائن کے حوالے سے گرما گرمی کا باعث رہا لیکن دیکھا جائے تو کرناٹک کی بہادر اور جن سنگھیوں کی شیطانیت کیخلاف تن تنہا اللہ اکبر کا نعرہ لگانے والی مُسکان زینب نہ صرف دنیا بھر کی توجہ کا مرکز بن گئی، بلکہ مودی اور آر ایس ایس کے مسلم دشمنی اور اقلیتوں پر ظلم و ستم و بربریت کی بدنما و انسانیت دشمنی کا پردہ چاک کرنے کا باعث بنی۔ قارئین نے وہ مناظر تو مختلف چینلز پر یقیناً دیکھے ہونگے جب آر ایس ایس کے سینکڑوں غنڈوں کے حصار میں پھنسی ہوئی مسکان نے اللہ اکبر کے نعرے لگا کر ہندوتوا کے پجاریوں کو خوف و ہراس میں ایسے مبتلا کر دیا تھا کہ وہ اس نہتی بچی کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکے البتہ تقریباً ڈیڑھ منٹ کا اس واقعہ کا کلپ امریکہ و مغربی دنیا سمیت سارے ممالک کے چینلز و سوشل میڈیا کا ٹاپ ٹرینڈ بن کر مودی اور بھارتی جنونیوں کے منہ پر کالک مل گیا۔ مغرب اور دیگر اکناف عالم کی طاقتوں اور حقوق انسانی کی تنظیمیں جنہیں مودی کی مقبوضہ کشمیر میں درندگی و بربریت پر چُپ لگی رہتی ہے، اس واقعہ پر مودی و بھارتی جنونیوں کیخلاف مذمت کرتی نظر آئیں۔ افسوس کہ پاکستان کے علاوہ کسی اسلامی ملک خصوصاً سعودی عرب کی جانب سے بھارتی کمینگی کے خلاف کوئی احتجاج سامنے نہیں آیا۔ یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں، یہود مفاد کی دُھول میں اٹے اسلامی ممالک کے فرمانروائوں کو شائد یہ یاد نہیں کہ ذات باری کا کرم اور دین مبین کا فیض ہی بقاء اور سلامتی کا ضمن ہے کہ ایک نہتی لڑکی کے اللہ اکبر کے نعرے سے کافروں کو پسپائی اختیار کرنی پڑتی ہے بے شک اللہ سب سے بڑا ہے۔
وطن عزیز پاکستان میں مُسکان زینب کی جرأت و بہادری کو ہر طبقہ کی جانب سے خراج تحسین پیش کیا جا رہا ہے، ایوان بالا اور ایوان زیریں میں تمام سیاسی جماعتیں اس پر متفق نظر آئیں لیکن دوسری جانب سیاسی گرما گرمی بھی تیز ہوتی جا رہی ہے۔ 4 فروری سے 13 فروری تک کا عرصہ ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے۔ مولانا فضل الرحمن سے اسلام آباد میں ایم کیو ایم کے لوگوں اور پی ڈی ایم سے علیحدگی کے بعد اے این پی کے غلام احمد بلور کی ملاقاتیں، شہباز شریف کی دعوت پر زرداری و بلاول کی ماڈل ٹائون آمد ایم کیو ایم کے وفد کی شہباز شریف سے ملاقات، سینیٹ میں باپ کے سینیٹر کا اظہار برہمی، حکومت کیخلاف عدم اعتماد پر ن لیگ و فضل الرحمن کا اعلان اور چوہدریوں سے ملاقاتوں کے سلسلے سے افواہوں، قیاس آرائیوں، حکومتی حلیفوں اور فیصلہ سازوں کے حوالے سے حکایتوں کا طوفان برپا ہوتا رہا سارے چینلز اسی موضوع پر مصروف رہے، اپوزیشن نمبر گیمز پر اپنے دعوئوں کا اظہار کرتی رہی اور حکومتی جانب سے اتحادیوں اور ایک پیج کے دعوے، غرض شور شرابے کی بے ہنگم کیفیت طاری رہی، بہر حال صورتحال ڈھاک کے تین پات والی ہی رہی۔ ایک پرانے سیاسی کارکن اور صحافت میں اپنے تجربے کی بنیاد اور موجودہ حالات کے تناظر میں ہمارا تجزیہ یہی ہے کہ یہ سب کھیل تماشہ پیالی میں طوفان اٹھانے کے سواء کچھ نہیں اور اس کا اصل مقصد ایک جانب اپوزیشن کا اپنے آپ کو سیاسی ایرینا میں اپنے وجود کا عوام میں برقرار رکھنا ہے تو دوسری جانب حکومت کا اپنی گورننس، کرپشن پر اقدامات، مہنگائی و دیگر ایشوز پر کمزوریوں کے باوجود آئندہ انتخابات کیلئے اپنی مقبولیت برقرار رکھنا ہے۔
ہم پہلے بھی اس امر کا اظہار کر چکے ہیں کہ کپتان کی حکومت کی عوام و ملک کی کاوشوں، طویل المیعاد منصوبوں پر کوئی انگلی نہیں اٹھائی جا سکتی۔ حال ہی میں صحت کارڈ کا اجراء اور چند دنوں میں راشن کارڈ کا جاری کیا جانا عوامی بہبود کا اہم ترین اقدام ہیں مگر مہنگائی کا جن عام آدمی کی پریشانیوں کا اہم سبب اور حکومتی جماعت کی مقبولیت کو متاثر کرنے کی وجہ بن سکتا ہے۔ قطع نظر اس حقیقت کے کہ مہنگائی نے امریکہ سمیت ساری دنیا کو لپیٹ میں لیا ہوا ہے، ایک غریب، متوسط پاکستانی اپنی اور اپنے خاندان کیلئے پریشانی کے باعث اس حقیقت کو نہیں سمجھ سکتا اور اپوزیشن اس ایشو کو عوام میں اپنی ساکھ قائم رکھنے کیلئے سرگرم عمل ہے۔ اس کے نتائج بھی ضمنی الیکشنز، کنٹونمنٹ و بلدیاتی انتخاب میں سامنے آئے ہیں۔ جہاں تک موجودہ حالات میں کسی تبدیلی، نئے انتخابات یا حکومت مخالف اقدامات کا تعلق ہے بادی النظر اور موجودہ حالات میں اس کے کوئی امکانات نظر نہیں آتے۔ رمضان المبارک کے بعد بجٹ آنا ہے اور نومبر میں ایک اہم ترین ریاستی عہدے کافیصلہ ہونا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ بالفرض عدم اعتماد یا کسی وجہ سے حکومت کو جاناپڑتا ہے تو اپوزیشن کی کوئی پارٹی محض ڈیڑھ سال کیلئے ملک اور عوام کو درپیش مشکلات کو اپنے سر پر اٹھانے اور آئندہ انتخابات میں ناکامی کا رسک لینے پر تیار نہیں ہوگی۔ مزید یہ کہ ایسی کسی بھی صورتحال میں عمران خان چُپ ہو کر تو نہیں بیٹھے گا۔ مخالفت میں ہو کر عمران خان مزید مضبوطی سے اپنے مخالفین کیلئے نہ صرف (بقول عمران) خطرناک ہو جائیگا بلکہ سیاسی شہید بن کر اگلے انتخابات میں فاتح ہو سکتا ہے۔ ہمارا سطور بالا میں یہ اظہار کہ اپوزیشن کے کھیل تماشے عوام میں اپنا وجود برقرار رکھنے کیلئے ہیں غلط نہیں ہے۔
سیانوں اور بزرگوں کا ایک محاورہ ہے زباں شیریں، ملک گیری، زبان ٹیڑھی ملک بانکا (ٹیڑھا)، کپتان نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ تحریک انصاف کا بیانیہ اور حکومتی کارکردگی کی آگاہی کیلئے عوامی رابطہ مہم شروع کر رہے ہیں 18 تاریخ کو وہ پہلا رابطہ جلسہ کر رہے ہیں، ہماری صلاح ہے کہ وہ چور ڈاکوئوں مخالفین کیلئے زبان ٹیڑھی کرنے کی بجائے شیریں زبانی سے عوام کے دل جیتنے کی کوشش کریں کہ وہ خود بھی اس حقیقت یعنی کرپشن اور کرپٹ کیخلاف اپنی جدوجہد مؤثر نہ ہونے کا اعتراف کر چکے ہیں۔ شیریں زبانی اور غیر جانبدارانہ انتظامی، تنظیمی و پالیسی سازی میں مثبت فیصلے ضروری ہیں۔ تذکرتاً ہم حالیہ کارکردگی ایوارڈز کا حوالہ دے سکتے ہیں، اس کے باعث بہت سے کابینہ اراکین میں مایوسی آئی ہے اور شاہ محمود قریشی، علی محمد خان وغیرہ نے اس کا اظہار بھی کردیا ہے۔ اقتدار، اختیار، عروج و زوال تو اوپر والے کا اختیار اور اس کی عطاء ہے، بندے کا کام تو امانت دار کے طور پر عمل پذیری ہے اور عہدے و اختیار پر غرور و تکبر کرنا نہیں کیونکہ غرور صرف اللہ کی چادر ہے اور مغرور اللہ سے محاذ آرائی کرتا ہے۔ر یاست مدینہ کا عزم رکھنے والے وزیراعظم کو اس کا خیال اور عمل ضروری ہے کہ بے شک اللہ سب سے بڑا ہے اور اس کے حکم سے ہر نیک عمل کی تکمیل ہے۔
٭٭٭