رمضان المبارک کی سترہ تاریخ تھی اور جمعہ کا دن تھا سن دو ہجری تھا۔ دو فریق آمنے سامنے تھے۔313کی جماعت دو گھوڑوں کے ساتھ گویا کہ دنیاوی طور پر بے سرو سامانی تھی۔ دوسری طرف فرعون اُمت اسلامیہ ابوجہل ایک ہزار بنیادی سازوسامان سے لدا ہوا اس نیت کے ساتھ سامنے تھا کہ یہ چند مٹھی بھر لوگوں کی حیثیت ہی کیا ہے۔ چیونٹی کی طرح مسل کر رکھ دیں گے ان تین سو تیرہ لوگوں میں صرف دو مجاہدوں کی بات ہی زلزلہ برپا کر دینے والی تھی۔ مہاجرین کے ایک مجاہد حضرت سعد بن معاذ نے کہا قسم ہے اس ذات اک کی جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے اگر آپ ہم سے یہ کہیں گے کہ آپ سمندر میں کود جائیں۔ تو ہم میں سے کوئی شخص پیچھے نہیں رہے گا سمندر میں کود جائے گا حضرت سعد بن معاذ کے مشورہ پ ہی سرکار دو عالم نے ایک چھپر بنایا جہاں آجکل مسجد عریش ہے سرکار دوعالم نے اس چھپر میں دو نفل ادا فرمائے اور پھر ساری رات بارگاہ ایزدی میں دعا میں گزار دیئے حضرت سعد بن معاذ تلوار لیکر ساری رات اس چھپر کے باہر پہرہ دیتے رہے دوسری طرف انصار کے ایک مجاہد حضرت مقدار بن اسود کے الفاظ تھے عرض کرتے ہیں یارسول اللہ جس کا حکم اللہ رب العزت نے آپ کو دیا ہے وہ انجام دیجئے کہ ہم بنی اسرائیل کی طرح یہ نہیں کہیں گے کہ اے موسیٰ تم جائو اور تمہارا رب جائے دونوں مل کر جنگ کرو۔ جب فتح ہوجائے ہمیں بلا لینا ہم تو یہیں بیٹھے ہیں۔ ہم آپ کے ساتھ شانہ بشانہ جنگ کریں اور فتح حاصل کریں گے۔ بدرکا دن حقیقی معنوں میں یوم الفرقان تھا۔ سرکاری دوعالم کا سگاچچا جو بعد مسلمان ہوئے۔ بدر کے دن کفار کے ساتھ لڑ رہے تھے سیدنا صدیق اکبر کا بیٹا ان کے مدمقابل تھا۔حضرت عمر کا سگا ماموں سامنے آگیا۔ سرکار دو عالم کے شیدائیوں نے یہ ثابت کردیا سرکار دو عالم کی ذات بابرکات کے سامنے کوئی رشتہ اہمیت نہیں رکھتا۔ یہی کہ وہ مٹھی بھر مسلمان دنیا پر چھا گئے۔ اس وقت کی دو عظیم سلطنتوں فارس اور روم کو شکست دی۔ اور ہم بچارے لفظی گھوڑے دوڑانے والے مصلحتوں کا شکار ہو کر مال وقوت میں زیادہ اور طاقت ور ہو کہ بھی غزہ کے مسلمانوں کے لئے کچھ نہیں کرسکے اور نہ ہی کریں گے۔ چونکہ ہمارے سامنے ہماری دنیا ہے تین سو تیرہ لوگوں کے اللہ و رسول کی رضا تھی ترجیح بدلنے سے ہمارا رعب و دبدیہ جاتا رہا اور ہم بھیگی بلّی بن کر رہ گئے۔
٭٭٭