شہباز حکومت مسائل کا شکار!

0
94
پیر مکرم الحق

کوئی بھی حکومت جس کا سربراہ فیصلے کرنے میں آزاد نہیں ایسی حکومت پائیدار نہیں ہوتی، بدقسمتی سے شہبازشریف برائے نام وزیراعظم تو ہیں لیکن اصل فیصلے نوازشریف کے ہونگے جنہیں اسٹیبلشمنٹ کی مکمل حمایت حاصل نہیں ہے البتہ شہباز شریف کو اسٹیبلشمنٹ ”اپنا بندہ” سمجھتے ہیںاور وہ نہیں چاہتے کہ شہبازشریف اپنے بڑے بھائی سے ڈکٹیشن لیں اور حقیقت یہ ہے کہ نوازشریف کے آشیرباد کے بغیر شہباز شریف کی سیاسی حیثیت پنجاب کی حد تک بطور ایک اچھے انتظامی سربراہ کی تو ہے لیکن پنجاب کی عوام کو نوازشریف کا نڈر پن پسند ہے وہ کھل کر دل کی بات کہہ دیتے ہیں اور پنجاب کی عوام کو ایسے سیاسی رہنما میں زیادہ دلچسپی ہے نپی تلی بات کو عوام ”ڈھیلا” یا ڈھلا سمجھتے ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں ساڈا لیڈر شیر ہونا چاہیدا ہے اور بدقسمتی سے شہبازشریف کسی بھی کونے سے شیر نہیں لگتے۔ جب کوئی بات بھی کرتے ہیں تو لگتا ہے کہ انہیں اپنی بات پر بھی پورا بھروسہ نہیں تو عوام کیوں اور کیسے ان کی بات کو سچ مان لے گی۔ شہباز نام میں تو وزیراعظم کا عہدہ رکھتے ہیں لیکن مریم نواز بطور وزیراعلیٰ اگر آٹے کا تھیلا بھی عوام میں تقسیم کررہی ہیں تو تصویر میاں نوازشریف کی اس پر چسپاں ہے۔ امیج تو نوازشریف کا بن رہا ہے۔ ان بھائیوں کا گھر اور کاروبار سانجے ہیں خاندان کی ”پگ” نوازشریف کے سر پر ہے۔ شہباز شریف”نکا بھائی” کیا کرسکتا ہے۔ حال ہی میں کابینہ میں شہبازشریف اور اسٹیبلشمنٹ کی منشا سے ماہر اقتصادیات ا ور سابق بینکر محمد اورنگزیب جوکہ ماضی قریب میں حبیب بنک کے سربراہ تھے انہیں وزیرمالیات(فنانس) لگا دیا گیا۔ جبکہ نواز شریف کی خواہش تھی کہ اپنے سمدھی اسحاق ڈار کو یہ عہدہ دیا جائے جو صاحب شہباز شریف کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ اسٹیبلشمنٹ بھی اسحاق ڈار کو زیادہ پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھتی۔ عوامی رائے میں بھی اسحاق ڈار کوئی زیادہ پسندیدہ شخصیت نہیں ہیں ان کے متعلق ایک عام تاثر یہ ہے کہ وہ ایک منکبہ اور اکھڑتے لہجہ میں بات کرنے والے سیاستدان ہیں۔ وہ ایک کرخت اکائونٹنٹ ہیں کئی سال سے دنیائے سیاست میں رہنے کے باوجود سیاست نے انکا کچھ نہیں بگڑا، اسحاق ڈار نے اپنے آپ کو تبدیل کرنے کی سعی بھی نہیں کی۔ وہ بھی سوچتے ہونگے کہ اس عمر میں کیا خاک مسلمان ہونگے؟” یہاں مسلمان سے مراد ہے لچکدار سیاستدان! اسی لئے جب بھی آپ شہبازشریف کو اگر آپ اسحاق ڈار کے ساتھ بیٹھا دیکھیں گے تو محسوس ہوگا کہ شہباز شریف کو فکر مند اور لاتعلق محسوس کرینگے۔ محمد اورنگزیب حالانکہ بطور وزیر خزانہ حلف اٹھا چکے ہیں۔ لیکن نوازشریف اب بھی اسحاق ڈار کے لئے لابینگ کر رہے ہیں۔ ایسی تقسیم اور دخل اندازی نہ صرف مسلم لیگ ”ف” کیلئے خطرناک ہے بلکہ شریف خاندان کو بھی ”راوی میں دھکیل” سکتی ہے۔ کیونکہ پہلے ہی شریف خاندان کے دشمن بہت ہیں اور اگر آپس میں سرد جنگ رہی تو رائیونڈ کا مرکز کمزور پڑتا جائیگا۔ اسحاق ڈار سے زیادہ اہمیت اس بات کی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کامیاب ہو۔ کامیابی اسی صورت میں ممکن ہے کہ دونوں بھائی ایک پیچ پر ہوں اگر تقسیم بڑھی تو برا ہوگا۔ حکومت کی ناکامی قیدی نمبر804کی کامیابی ہوگی۔ دوسری طرف زرداری صاحب صدارتی محل میں بیٹھے شہبازشریف کی ناکامی کا انتظار کر رہے ہیں تاکہ اپنے اقتدار کو وسیع کریں جسکا فی الحال تو امکان نہیں ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی ظاہر ہے کوشش کرتی رہے گی کہ حالات ایسے بنیں کہ اقتدار کی فاختہ انکے سربراہ کے سر پر بیٹھے۔ اور یہ ہر سیاسی جماعت کا حق ہے اور اگر وہ کر رہے ہیں تو یہ انکا حق ہے حالات کچھ بے یقینی کی طرف اشارہ کر رہے ہیں اور نوازشریف بجائے اپنے بھائی کہ ہاتھ مضبوط کرنے کے اپنے سمدھی کو آگے لانے کی کوشش میں ہیں۔آنے والے دنوں میں ان کاوشوں کا نتیجہ سامنے آجائیگا اور دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوجائیگا۔ لحاظ انتظار فرمائیے!!!!۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here