سیاسی بازیگری!!!

0
132
جاوید رانا

ارادہ تو ہمارا یہ تھا کہ روس اور یوکرائن کے درمیان شدید ترین نزاعی صورتحال پر اپنا اظہار خیال کریں کہ اس محاذ آرائی پر دنیا بھر کو سخت مشکلات خصوصاً گیس اور توانائی کے ایشوز کا سامنا کرنا پڑیگا، روس کا اپنے جوہری یونٹ کو تیار کرنے کا حکم اور سلامتی کونسل میں جنگ بندی کی قرارداد کو ویٹو کر دینا تشویش کا امر تھا لیکن اب خبریں یہ ہیں کہ مذاکرات کا راستہ کھلنے کے امکانات ہیں وطن عزیز پاکستان کا سیاسی منظر نامہ البتہ تماشہ بازی کی گرد میں بُری طرح اٹا ہوا ہے۔ حکومت گرانے کی اپوزیشن کے بیانات، ملاقاتیں، لانگ مارچ کے دعوے، ایک رکن پارلیمنٹ کی جماعت کے سربراہ سے خوشامدیں، حکومتی حلیفوں کے اللے تللے اور سبز باغ دکھانے کی کوششوں پر سوموار کو وزیراعظم کے خطاب نے اوس ڈال دی ہے۔
وزیراعظم کے متذکرہ خطاب میں جہاں عوام کے حوالے سے متعدد اعلانات، آزاد خارجہ پالیسی، معاشی بہتری کے اقدامات پر اظہار خیال کیا گیا وہیں اپنے ڈانوا ڈول ارکان پارلیمنٹ و حلیفوں کو بھی حکومتی تسلسل و استحکام کا یقین بھی دلایا۔ خطاب کے دوران کپتان پُرعزم و پُر اعتماد نظر آیا۔ سبب یہ رہا کہ قوم سے خطاب سے قبل آرمی چیف سے ملاقات میں بہت سے معاملات واضح ہوئے۔ مزید برآں پیٹرول و بجلی کے ٹیرف میں کمی اور بجٹ تک اضافہ نہ کرنے، احساس پروگرام میں اضافے فریش گریجویٹس کو اسٹائپنڈ جیسے اعلانات سے عوام میں امید کی کرن پیدا ہوئی۔ یقیناً اس خطاب سے عمران خان کو گھر بھیجنے والوں کے عزائم اور ارادے متزلزل ہوئے ہیں۔ غیر جانبدار تجزیہ کاروں اورمبصرین کے مطابق خطاب سے قبل آرمی چیف سے ملاقات اور وزیراعظم کے پر اعتماد خطاب کے باعث سیاسی مخالفین کے خوان چکنا چور ہوئے ہیں۔ عدم اعتماد کی تحریک کا شور شرابا اور زور ٹوٹتا ہوا نظر آتا ہے۔
قارئین کو یاد ہوگا ہم اپنے گزشتہ کئی کالموں میں واضح کر چکے ہیں کہ سیاسی مخالفین کا حکومت مخالف تماشہ آئندہ انتخابات کیلئے اپنا سیاسی وجود برقرار رکھنا ہے، حکومت گرانے کی کوئی بھی تحریک، کوئی بھی کوشش اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتی ہے جب تک فیصلہ سازوں کی مرضی و منشاء اس میں شامل نہ ہو۔ ہمارے جائزے کے مطابق گزشتہ دو ماہ سے کپتان سیاسی حالات و بعض واقعات کے باعث ہیجانی کیفیت سے دوچار تھا۔ اس کیفیت میں بڑھتی ہوئی مہنگائی پر عوام کا رد عمل، مخالفین کے پروپیگنڈے، گورننس اور بیورو کریسی کے عوامل کیساتھ اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے خدشات کار فرما تھے، تاہم حالیہ ملاقات کے بعد نہ صرف یہ خدشات دور ہوئے بلکہ آئندہ انتخابات تک کیلئے راہ ہموار ہونے کے اشارے بھی ملے ہیں۔ مزید یہ بھی نظر آرہا ہے کہ مخالفین کیلئے گیٹ نمبر 4 کے دروازے بھی فی الحال بند ہو گئے ہیں۔
کہا جا سکتا ہے کہ فی الوقت راوی تبدیلی حکومت کیلئے سکون و تسلسل کی داستان لکھ رہا ہے لیکن روایتی مخالفین کی کوششیں تو تماشہ بازیاں ابھی بھی جاری ہیں۔ میڈیا پر لفظی محاذ آرائی بدستور ہو رہی ہے اور دونوں جانب سے ایک دوسرے کی تضحیک و الزام تراشی پر زور دیا جا رہا ہے۔ تحریک عدم اعتماد کے غبارے سے تو ہوا نکلتی نظر آتی ہے۔ لیکن لانگ مارچ کا تماشہ پیپلزپارٹی کی جانب سے شروع ہو چکا ہے اور اس کے مقابلے میں پی ٹی آئی کا سندھ بچائو مارچ بھی جاری و ساری ہے۔ ہمارا اصولی استدلال یہ رہا ہے کہ حکومت کا نکتۂ نظر اور عمل معاندانہ اور متصادم نہیں ہونا چاہیے بلکہ اسے اپنے کاموں، کارکردگی اور عوامی فلاح کے اقدامات سے اپنی کامیابی و مقبولیت کا گراف بڑھانا چاہیے۔ ایسا لگتا ہے کہ تحریک انصاف کے کپتان اور کھلاڑی ابھی تک اپنے 2014ء کے احتجاجی مزاج میں بھی ہیں۔ پیپلزپارٹی کے پہلے سے اعلان کردہ لانگ مارچ کے جواب میں سندھ مارچ تحریک انصاف کے اسی مزاج کا مظہر نظر آتا ہے۔ پیپلزپارٹی کے سندھ میں 14 سالہ اقتدار کو سندھ بچائو مارچ سے ختم کرنا دیوانے کا ایک خواب تو ہو سکتا ہے حقیقت ہر گزنہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے بلاول کے لانگ مارچ سے تحریک انصاف کو کسی بھی قسم کی دشواری نہیں ہو سکتی۔ اس مارچ مقابلے کی وجہ سے کسی بھی تصادم کے خدشات کے امکانات ہوسکتے ہیں۔ بہر حال خدا کا شکر ہے ہکہ ہمارے ان سطور کے تحریر کئے جانے تک ایسا کچھ نہیں ہوا ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ سندھ میں پیپلزپارٹی کا ووٹ بینک اتنا ہی مضبوط ہے جتنا کہ پی ٹی آئی کا پختونخواہ میں۔ ووٹ بینک میں اضافے اور عوامی مقبولیت کیلئے سیاسی قائد کا امیج اور متعلقہ جماعت کی کارکردگی بنیاد ہوتی ہے، علی زیدی جیسے لوگ اس طرح کے فیصلے اور اقدامات کر کے محاذ آرائی کی کیفیت تو برپا کر سکتے ہیں عوامی مقبولیت نہیں، تعجب ہے کہ اس ہنگام میں شاہ محمود جیسا جہاندیدہ اور زیرک رہنما کیسے حصہ بن گیا۔ علی زیدی کے پی ٹی آئی سندھ کے صدر کے طور سے رویوں پر تو تنظیم (سندھ) کے سینئر نائب صدر اور سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف حلیم عادل شیخ، علی جونیجو، طاہر شاہ اور اکبر علی پلی اپنے تنظیمی عہدیداروں سے مستعفی ہو گئے۔ ایسا شخص جو اپنے ساتھی عہدیداروں کیساتھ نہ بنا سکا وہ عوام کی ہمدردیاں کیسے سمیٹے گا۔
کپتان کو ان معاملات پر بھی توجہ دینی ہوگی کیونکہ کبھی کبھی گھر کے چراغوں سے بھی گھر جل جاتے ہیں خود نمائی گروہ بندی ذاتی مفاد کے معاملات پاکستان میں ہی نہیں یہاں شکاگو میں بھی جاری ہیں جو نہ صرف پی ٹی آئی کی مقبولیت کو متاثر کر سکتے ہیں بلکہ آئندہ انتخاب میں بھی دُشواری کا سبب بن سکتے ہیں۔
بہت جلد بلدیاتی انتخابات کا مرحلہ پیش آنا ہے، پنجاب میں نواز لیگ سے مقابلہ یقیناً کڑی آزمائش ہو سکتاہے اپوزیشن کا عدم اعتماد کا شور و غوغا اور دعویٰ تو اپنے انجام کو پہنچتا ہوا نظر آرہا ہے، لانگ مارچ کا بھی کوئیک مارچ ہونے کے چانسز ہیں جبھی تو بلاول وزیراعظم کے خطاب اور عوام کیلئے بڑے ریلیف کو لانگ مارچ سے گھبرانے کی اول فول بک رہے ہیں لیکن یہ سیاسی تماشہ ابھی تھما نہیں ہے، جاری رہے گا کہ ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق۔ کچھ نہیں ہے تو عداوت ہی سہی”۔ حکومت اور حزب اختلاف کی عداوت سیاسی ہی رہے تو اچھا ہے دشمنی نہ ملک و قوم کیلئے بہتر ہے اور نہ سیاسی اشرافیہ کیلئے ویسے بھی ہم نے اپنے دورۂ پاکستان میں حکومتی و مخالف رہنمائوں کو ذاتی محفلوں میں باہم شیر و شکر اور ہم پیالہ و ہم نوالہ دیکھا ہے۔ سیاسی مخالفت کا تماشہ میڈیا اور پارلیمنٹ تک جاری ہے اور رہے گا کہ سیاست اسی کا نام ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here