ایک فٹ بال فیلڈ کا سائز 81 ہزار اسکوائر فٹ ہوتا ہے، جس میں زیادہ سے زیادہ 40 ہزار اشخاص سما سکتے ہیں۔ اِس سے زیادہ افراد کی گنجائش نکالنے کیلئے ایک شخص کو دوسرے کے کندھے پر سوار ہونا پڑتا ہے۔ ویسے تو کسی جلسہ گاہ میں لوگوں کی تعداد کا تخمینہ لگانا اخبار والوں کے فرائض میں شامل ہے، اِس لئے اِس سے بد دیانتی کی بو آنا ایک عام بات ہے۔ اب آپ مثال لیجئے پی ٹی آئی اِسلام آباد کے جلسے کی جس کا دعوی پی ٹی آئی کے ترجمان نے 10 لاکھ افراد کی شرکت کرنے کا کیا تھا۔ ٹھیک ہے 10 لاکھ افراد کا جم غفیر تو نظر نہیں آیا، لیکن اگر بالفرض ہوجاتا تو لوگوں کی لائن اسلام آباد سے لاہور تک پہنچ جاتی اور اُنہیں وزیراعظم عمران خان کی تقریر سننے کیلئے اپنے ٹی وی سیٹ کو سڑکوں پر لاکر رکھنا پڑتا۔ وہگھر میں بیٹھ کر تقریر نہیں سُن سکتے تھے ، کیونکہ اِس سے جلسہ گاہ میں لوگوں کی تعداد میں کمی آجانے کا خدشہ لاحق تھا، خصوصی طر پر وزیراعظم عمران خان نے یہ دعوی کیا تھا کہ وہ جلسہ گاہ کی تقریر میں کچھ اہم انکشافات کرینگے۔ شاید وہ بھول گئے تھے دوسرے جلسہ میں ضرور کرینگے۔ لیکن مضحکہ خیز امر یہ ہے کہ پی ڈی ایم نے بھی اپنا جلسہ اسلام آباد میں منعقد کیا تھاجس میں کافی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی تھی۔ یہ اور بات ہے کہ جلسہ گاہ میں بہت سارے پاکٹ مار گھس آئے تھے اور تقریبا” 7 ہزار افراد کی پاکٹیں کٹ گئیں تھیں۔ اسلام آباد میں ایف آئی آر درج کرانے کیلئے تھانے کے باہر لوگوں کی قطار لگ گئی تھی۔ جلسہ میں شریک ایک شخص جس کی پاکٹ کٹی تھی کہا کہ ایک دوسرے شخص نے اُس سے بغلگیر ہوتے ہوے کہا کہ ” جو نواز شریف کا یار ہے ، وہ میرا بھی یار ہے ۔ ” لیکن جب وہ اُس سے جدا ہوا تو اُس نے محسوس کیا کہ اُس کا بٹوہ غائب ہوچکا ہے۔ اِس دوران بغلگیر ہونے والا شخص مجمع میں غائب ہوچکا تھا۔ مذکورہ شخص نے بتایا کہ بٹوے میں گھریلو اخراجات کیلئے تقریبا” 5 ہزار روپے تھے، جسے وہ کسی دوست یا رشتہ دار سے قرض لے کر پورا کریگا۔ اُس نے یہ بھی کہا کہ آئندہ وہ کسی جلسے میں شرکت نہیں کریگا۔ ایک دوسرے شخص نے بتایا کہ وہ اپنی پگڑی میں پانچ سو روپے چھپایا ہوا تھا، لیکن جلسہ ختم ہونے کے بعد جب اُس نے ڈھونڈا تو کہیں بھی اُسے وہ رقم نہ مل سکی۔ اُس نے کہا کہ ظاہر ہے کسی نے دھکم دھکا میں رقم چرالی تھی۔ تھانیدار ایف آئی آر درج کرتے وقت ہر ایک کو غصے میں کہہ رہے تھے کہ وہ پی ڈی ایم کے رہنماؤں سے اپنی کھوئی ہوئی رقم کا مطالبہ کریں۔ بہرکیف سوال یہ ہے کہ عمران خان کے جلسے میں لوگوں کی تعداد کتنی تھی؟ میں نے جیسا کہ اُن چینلز پر جو وزیراعظم عمران خان کو سپورٹ کرتے ہیں ، اور نہیں چاہتے کہ اُن کا بیڑا غرق ہو دیکھا تو اُس سے یہی اندازہ لگایا کہ شرکت کرنے والوں کی تعداد ایک لاکھ نفوس پر مشتمل تھی۔ یہاں یہ وضاحت کردوں کہ پی ٹی آئی اسلام آباد کے جلسے کی جو تصویر ٹی وی پر دکھائی جارہی تھی وہ حقیقت میں اُسی جلسے کی تھی ، کسی اور جلسہ کی نہیں۔ بلاشبہ بعض چینلز والے کسی ایک جلسے کی کاروائی کی فلم دوسرے جلسے کے ساتھ گڈ مڈکر دیتے ہیںاِس نیک فعل سے اُن کی پسندیدہ سیاسی جماعت کی ساکھ برقرار رہتی ہے۔ بلکہ بعض سیاسی گرو کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے جلسے کی فلم کو پی ڈی ایم کے جلسے کی کوریج میںدکھا دیا گیا تھا۔ ویسے بھی روزنامہ جنگ نے پی ٹی آئی ، اسلام آباد کے جلسے میں لوگوں کی تعداد کے بارے میں جو نقشہ کھینچا ہے وہ کچھ دھندلا سے ہے ۔ مذکورہ اخبار کی کسی بھی عوامی رہنما سے شیر وشکر سے نہیں رہتی، شہید ذوالفقار علی بھٹو کے حلق پر بھی روزنامہ جنگ چھری رکھ کر کھڑا رہتا تھا، یہی رِیت اِس نے عمران خان کے خلاف بھی روا رکھا ہے۔ ویسے اِس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ عمران خان کی و زارت عظمی کے دوران اِس اخبار کے مدیر اعلی میر شکیل الرحمن سالوں سال تک نذر زنداں رہے۔ میر شکیل الرحمن کو یہ توقع تھی کہ عمران خان اُنہیں رہا کرانے میں کوئی اہم کردار ادا کرینگے، لیکن اُنہوں نے ایسا نہیں کیا ۔ عمران خان کو پتا تھا کہ جیل میں شکیل الرحمن کو کوئی تکلیف نہیں ہورہی تھی ۔ صبح کے ناشتے میں اُن کیلئے اُن کے گھر سے حلوہ پوری اور انڈے کا آملیٹ آجاتا تھا۔ لنچ میں شامی کباب اور پراٹھا وہ ہضم کرتے تھے اور رات کے کھانے میں چپاتی اور پالک گوشت کا سالن وہ انتہائی شوق سے تناول کرتے تھے ۔ ویسے اُن پر الزام کوئی بہت سنگین نہ تھا، صرف یہ تھا کہ اُنہوں نے اُس وقت کے وزیراعظم میاں محمد نوازشریف سے صحافیوں کی رہائشی پلاٹ کیلئے سینکڑوں ایکڑ زمین الاٹ کرائی تھی لیکن وہ پلاٹس صحافیوں میں تقسیم کرنے کے بجائے اپنے بیٹے بیٹیوں میں تقسیم کر دئیے تھے۔ شاید اُنہوں نے سوچا ہوگا کہ صحافیوں کے پاس اتنے پیسے ہی نہیں ہوتے جن سے وہ اُن پلاٹس پر مکانات تعمیر کروائینگے۔ وزیراعظم عمران خان کو میر شکیل الرحمن سے بغض اِسلئے ہے کہ اُن کے ماتحت چلنے والا ٹی وی چینل جیو اور روزنامہ جنگ کا معیار انتہائی پھس پھسا ہوتاہے۔ جلسہ گاہ میں لوگوں کی تعداد کا دعوی کرنا ایک متنازع مسئلہ بنا ہوا ہے، کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ جس جلسہ میں لوگوں کا جتنا بڑا اژدہام ہوگا ، اُسی جلسے کے انعقاد کرنے والی پارٹی کے انتخابات میں جیتنے کے مواقع زیادہ ہونگے۔ ایسا شاذو نادر دیکھنے میں آیا کہ کوئی پارٹی پانچ لاکھ کا مجمع جمع کرے اور اُس کے رہنما کی انتخاب میں ضمانت بھی ضبط ہوجائے۔ لیکن یہ امر بھی باعث توجہ ہے کہ بعض جلسے میں لوگوں کی تعداد تو کم ہوتی ہے لیکن اُس میں عوامی مسائل کو حل کرنے کیلئے انتہائی موثر اقدام اٹھائے جاتے ہیں۔