عمران خان حکومت کو ساڑھے تین سال ہو گئے ہیں اور جن مشکلات میں یہ وقت گُزرا ہے اس کا ہماری قوم کو باخوبی علم ہے اور ہماری قوم جس طرح مہنگائی کا مقابلہ کر رہی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے کوئی بھی حکمران یہ نہیں چاہے گا کہ اس کی قوم کو مہنگائی کے بوجھ تلے دبایا جائے لیکن کچھ حالات کی مجبوری ہوتی ہے جس کی وجہ سے کچھ اقدام اُٹھان پڑتے ہیں۔ اندرونی طور پر تو حکومت وہ اقدام نہیں کر سکی لیکن بیرونی طور پر اور خارجہ پالیسی میں جو قابل قدر کام کئے گئے ہیں اس سے پاکستان کا پوری دنیا میں جو نام ہوا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے لیکن ہماری اپوزیشن میں نہ مانوں والی کہاوت پر عمل کر رہی ہے اور ان کو کچھ بھی اچھا نہیں لگ رہا، ہماری ایک اور بد قسمتی ہے کہ ہماری عدلیہ کی کارکردگی وہ نہیں ہے جو ہونی چاہیے جس طرح ہمارے پرانے کھلاڑیوں پر جو مقدمات ہیں ان پر ساڑھے تین سالوں میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی کسی بھی لیڈر کو جنہوں نے ملک کو لُوٹا لیکن ہماری عدالتیں کسی ایک کو بھی سزا نہ دے سکیں، عمران خان کی جو بات ان لیڈروں کو ناگوار گزرتی ہے وہ اس کی سچائی ہے اور جس کا وہ برملا اظہار کر دیتا ہے۔ ایک دوسرے پر الزام لگانے والے کس طرح سے ایک ہو گئے ہیں اس میں صرف اور صرف اپنے آپ کو بچانے کیلئے کوششیں کر رہے ہیں ان کے مقدمات ختم کر دیئے جائیں تاکہ جو اس ملک کو لُوٹ کر پیسہ کمایا ہے وہ کسی طرح بچ جائے۔ یہ بات تو کسی سے ڈھکی چُھپی نہیں ہے کہ عمران خان نے امریکہ کو اڈے دینے سے انکار کر دیا تھا جس کی وجہ سے وہ بات امریکہ کو اچھی نہیں لگی اور وہ وقت کا انتظار کر رہا تھا یقیناً پاکستان کو امریکہ سے تعلقات نہیں بگاڑنے چاہئیں اس سے پاکستان کو بہت نقصانات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جس طرح ہماری اپوزیشن نے حکومت کیخلاف محاذ بنایا ہے وہ یقیناً کسی بیرونی مداخلت کی وجہ سے ہے اور وہ بات سامنے آگئی کیا کسی ملک کا وزیراعظم کسی بڑی طاقت کیخلاف اس طرح کام کر سکتا ہے اور سب کے سامنے جھوٹ بول سکتا ہے جو لیٹر عمران خان نے دکھایا تھا اس میں کوئی تو ایسی بات ضرور ہے جو ہماری نیشنل سیکیورٹی نے بھی اس کو اپنے نوٹس میں ڈالا ہے جس میں ہماری تینوں افواج کے سربراہ شریک تھے لیکن ہماری فوجی ترجمان نے امریکہ اور دیگر ممالک سے تعلقات رکھنے پر زور دیا ہے کسی بھی ملک کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی بھی ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرے۔ لیٹر کے جھوٹ اور سچ کا تعین تو اب ہماری سپریم کورٹ ہی کرے گی اس وقت تک ہمیں انتظار کرنا پڑے گا جس طرح ہماری اپوزیشن نے جوڑ توڑ کی سیاست کر کے جس طرح منڈی لگائی ہے اور جس طرح ہماری جماعتوں نے اپنی قیمتیں لگائی ہیں اچھے وقت میں تو سب ساتھ ہوتے ہیں بُرے وقت میں جو ساتھ کھڑا رہتا ہے اس کا نام زندہ رہتا ہے ساڑھے تین سال گزار دیئے لیکن ساتھ رہے اب ایسا کونسا طوفان آنے والا تھا کہ ساتھ چھوڑ دیا۔ پیپلزپارٹی کیساتھ یہ چوتھی بار معاہدہ کیا گیا ہے پہلے معاہدوں میں کیا ملا جواب مل جائیگا۔ ویسے ایک بات تو سچ ہے کہ مہاجر اور سندھیوں کو ساتھ رہ کر فائدہ ہے ورنہ جس تیزی کیساتھ باہر سے دوسری اقوام آرہی ہیں وہ کراچی میں اپنی دھاک بٹھائیں گی۔ اگر اب بھی ہماری قوم نے ہوش کے ناخن نہیں لیے تو آنے والا وقت بہت تکلیف دہ ہوگا۔ اپوزیشن نے جو پلان بنایا تھا کہ عمران خان کو ہٹانے کا اور اس کے بعد گرفتار کرنے کا اور اس پر مقدمہ چلا کر جس طرح بھٹو کو پھانسی پر لٹکایا گیا اسی طرح عمران خان کیساتھ بھی یہی سلوک کیا جاتا، مگر بد قسمتی سے یہ نہ ہو سکا اور عمران خان کے عدم اعتماد کی تحریک کو ناکام بنا کر اپوزیشن کو ایک اور جھٹکا دیدیا ہے اب عمران پر غداری کا مقدمہ بنایا جائیگا آئین کی خلاف ورزی پر اس سے پہلے کتنے صدر اور وزیراعظموں اور لیڈروں پر غداری کا مقدمہ چلا اور کتنوں کو سزا ہوئی یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ اپوزیشن کو اب الیکشن کی تیاری کرنی چاہیے کیونکہ ان کی وہ خواہش پوری ہوگئی کہ عمران کو ہٹا دیا لیکن اس طرح نہیں جس طرح وہ چاہتے تھے یہ تو خود عمران خان نے اسمبلیاں توڑ کر اپوزیشن کو موقع دیا ہے کہ وہ اب عوام فیصلہ کرے گی کہ وہ کس کیساتھ ہیں، نئے جوش اور ولولے کیساتھ میدان میں اُتریں۔ کورٹ کا فیصلہ کب آتا ہے ایک بات تو ثابت ہے کہ لیٹر جعلی نہیں ہے کیونکہ اتنا بڑا دھوکہ ایک منتخب وزیراعظم قوم کو نہیں دے سکتا اب نگراں حکومت کا کام ہے جلد از جلد الیکشن کروانے کا انتظام کرے ورنہ تو پھر وہی صدا آنے والی ہے میرے ہم وطنو! اسلام و علیکم۔ آپس میں لڑنے کے بجائے الیکشن کی تیاری کی جائے۔
٭٭٭