گزشتہ ہفتے ہم نے بعض خدشات کا اظہار کرتے ہوئے یہ سوال اُٹھایا تھا کہ سیاسی عدم استحکام کی صورتحال کو قابو میں لانے کے برعکس نئے پنڈورا باکس کھول کر مزید ابتری نہ ملک و عوام کیلئے بہتر ہو سکتی ہے اور نہ ہی ریاست و حکومت کے حق میں۔ ہمارے خدشات کا سبب جہاں ایک جانب نئے آرمی چیف کی تقرری کے حوالے سے تھا وہیں یہ فکر بھی تھی کہ 70 فیصد عوام کے محبوب قائد اور ملک کی سب سے بڑی و مقبول سیاسی جماعت کے رہبر کی لانگ مارچ کے ناطے سے حکومتی حماقتوں کے باعث عوام کا سمندر رد عمل نہ دے اور وطن عزیز بہت ابتری کا شکار نہ ہو جائے۔ عمل کا رد عمل ایک فطری امر ہے۔ شکر الحمد للہ کہ ہمارے خدشات غلط ہی رہے اور صورتحال ابتری کی جانب نہ گئی۔ اگر یہ کہاجائے کہ اس مثبت اقدام کا سہرا عمران خان کے سر جاتا ہے تو غلط نہ ہوگا۔ مسلح بری فوج کے سینئر ترین جرنیلوں کی تقرری پر عمران خان کے مشورے پر صدر مملکت کی بلا تاخیر منظوری سے کسی بھی انتشار و اختلاف کے بغیر یہ مرحلہ تکمیل کو پہنچا۔ دوسری جانب پنڈی پہنچ کر لاکھوں شیدائیوں کے جوش و خروش اور جذبات دیکھتے ہوئے کپتان نے عقلمندانہ فیصلہ کیا اور مزید کسی پیش رفت کرنے کے بجائے اور کسی متوقع محاذ آرائی سے گریز کی راہ اپناتے ہوئے اسمبلیوں سے مستعفی ہونے اور پنجاب خیبر پختونخواہ کی اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کا اعلان کر دیا۔ ہماری رائے میں کپتان کا یہ نہایت دانشمندانہ اقدام تھا اور پی ٹی آئی کے حمایتی عوام کے جذبات کو کنٹرول کرنے کیساتھ مخالفین کیلئے حیرت انگیز و غیر متوقع سیاسی اقدام بنا۔ امپورٹڈ حکومت اس قسم کے کسی اعلان کی توقع نہیں کر رہی تھی یہی ہوا کہ ابتداء میں حکومتی بھان متی کے کنبے کو اپنا رد عمل دینے میں دیر لگی اور تمام کرتا دھرتا گومگو کی کیفیت میں نظر آئے۔ بعد میں ایک جانب ضمنی انتخاب کے انعقاد، تحریک عدم اعتماد لانے اور کپتان کو نئی اسٹیبلشمنٹ سے نا امیدی کے کھوکھلے بیانیئے نیز عام انتخابات اسمبلیوں کی مدت مکمل ہونے پر کرانے کے راگ الاپتے رہے بلکہ اب بھی الاپ رہے ہیں۔ امپورٹڈ حکومت کے پروردہ چیف الیکشن کمشنر نے بھی شامل باجے کا کردار ادا کرتے ہوئے ضمنی انتخاب کے انعقاد کی مدت، اخراجات اور وسائل کے اعداد و شمار پیش کر دیئے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دو صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل اور سندھ و بلوچستان سے پی ٹی آئی کے اراکین صوبائی اسمبلی کے استعفوں کے بعد جو الیکٹورل صورتحال سامنے آئے اور جس طرح کا عوامی رد عمل رونماہوگا اس میں ضمنی انتخاب کرانا ممکن ہوگا؟ تمام اسمبلیوں بمعہ قومی اسمبلی و سینیٹ کے تعداد تقریباً ساڑھے آٹھ سو بنتی ہے۔ پی ٹی آئی کے اراکین کی تعداد کل اراکین کی 64 فیصد (تقریبا! 567) بنتی ہے۔ قطع نظر اس کے کہ ہمارے پارلیمانی نظام میں صوبائی حکومتوں کو خود مختاری حاصل ہے، اس حقیقت سے انکار نہیں کہ ریاستی اور حکومتی امور میں محض وفاق انفرادی طور پر ہی ملک نہیں چلا سکتا۔ بلکہ متعدد معاملات و اقدامات میں اسے صوبوں کا اشتراک عمل و تعاون درکار ہوتا ہے۔ دوسری حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی جمہوریت میں اگر کسی بھی طرح عوام کی اداروں میں بھرپور نمائندگی نہ ہو تو وہ ادارے اپنی کارروائیوں و اقدامات میں کمزور ہوتے ہیں اور اس کے اثرات نہ صرف سیاسی بلکہ معاشی و انتظامی سیکیورٹ ابتری کی صورت ظاہر ہوتے ہیں۔
اپنے درج بالا تاثرات کے پیش نظر اگر یہ تصور کر لیں کہ کپتان کے حالیہ اعلان کے نتیجے میں پنجاب و پختونخواہ کی اسمبلیاں تحلیل ہو جاتی ہیں اور سندھ و بلوچستان کی صوبائی اسمبلیوں میں صرف حکومتی ارکان اور ان کے حامی ہی باقی رہتے ہیں تو کیا یہ صوبائی ایوان عوام کی اکثریت کی نمائندگی کرینگے اور کیا وفاق کیلئے ان کی معاونت مؤثر ہوگی اور کیا اس طرح ملک و عوام کے مفاد میں عمل پیرا ہونا ممکن ہوگا، اپریل میں عمران خان کے خلاف عدم اعتماد اور نتیجتاً پی ٹی آئی ارکان کے استعفوں کے بعد حکومتی دعوئوں اور اقدامات کے باوجود ملک جس سیاسی عدم استحکام سے خصوصاً معاشی بحران سے دوچار ہوا ہے اس کا اظہار تو اب امپورٹڈ حکومت کے سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے اپنے ایک آرٹیکل میں کر دیاہے کہ پاکستان کے حالات ڈیفالٹ کی طرف جا رہے ہیں غور کیجئے کہ عمران خان نے اگر اپنی تجویز پر عمل کر لیا اور اس کے بعد بھی عام انتخابات کی جگہ ضمنی انتخابات یا نگران حکومتیں لا کر تحلیل شدہ صوبوں کے معاملات چلانے کی کوشش کی گئی تو حالات کیا رُخ اختیار کر سکتے ہیں۔ عمران خان کی بھرپور حمایت اور اسمبلیوں سے علیحدگی کا عمل ملک بھر میں شدید رد عمل کا باعث بن سکتاہے اور امن و امان کی کیفیت پر اثر انداز بھی ہو سکتا ہے۔
دیکھا جائے تو عمران خان نے اس بار ایسی چال چلی ہے کہ امپورٹڈ اتحادیوں کے پاس اس کا کوئی توڑ نظر نہیں آتا۔ آئین کے مطابق اگر اسمبلی کا سیشن جاری ہو تو تحریک عدم اعتماد کی ریکوئزیشن نہیں ہو سکتی ہے۔ پنجاب و کے پی کے اجلاس جاری ہیں قانونی آئینی ماہرین کے مطابق گورنر راج صرف اس صورت میں نافذ ہو سکتا ہے جب صوبے میں لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال قابو سے باہر ہو جائے اور وہ بھی صرف دو ماہ کیلئے۔ اسٹیبلشمنٹ نے سیاست میں مداخلت سے قطعی گریز کا اعلان کر دیا ہے اور موجودہ سپہ سالار کی شہرت یہی ہے کہ نہایت کھرا، غیر جانبدار پروفیشنل اور حافظ قرآن ہے، واحد شمشیر اعزاز یافتہ پہلا سپہ سالار اور ایجنسیز کی سربراہی کا تجربہ کار ہے۔ ان تمام حالات میں حکومتی جُٹھ کے سارے راستے مسدود ہی نظر آتے ہیں، نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن کی اس صورتحال میں اب ان کی پنجاب میں جوڑ توڑ کی کوششیں شروع ہو گئی ہیں، زرداری نے لاہور میں ڈیرے ڈال لئے ہیں اور چودھری شجاعت کے توسط سے ق لیگی ارکان اور چودھری پرویز الٰہی کو رام کرنے کی کوششیں جاری ہیں تاہم پرویز الٰہی کا بیان کہ پنجاب حکومت عمران کی امانت ہے، اور اس کے حکم پر اسمبلی تحلیل کرنے میں ایک منٹ بھی نہیں لگائوں گا، واضح ہے، دوسری جانب کپتان اپنے پتے نہایت تیزی و چالاکی سے کھیل رہا ہے۔ زمان پارک سیاست کا مرکز بن چکا ہے اور کپتان کامیابی سے اپنے منصوبے کی تکمیل کی طرف بڑھ رہا ہے شنید یہ بھی ہے کہ ن لیگ کے دس سے زائد ارکان اسمبلی کپتان کی جھولی میں آ گرے ہیں۔
ہمارا تجزیہ اور اندازہ ہے کہ کپتان کے حالیہ بیان اور معروضی حالات کے باعث موجودہ حکمرانوں اور حواریوں کے حالات منیر نیازی کے شعر! ”میں ایک دریا سے پار اُترا تو میں نے دیکھا اک اور دریا کا سامنا تھا”۔ کی تفسیر بنے ہوئے ہیں کیونکہ انہیں اس حقیقت کا ادراک ہے کہ اس وقت ان کی سیاسی وقعت اور عوام میں شہر ت کیا ہے، اگر انتخابات کا ہنگام ہوتا ہے تو شکست ہی ان کا مقدر ہوگی، بالخصوص ن لیگ اس بھنور میں بُری طرح گِھر چکی ہے، پیپلزپارٹی تو پھر بھی سندھ میں اپنا پٹھو سیدھا کر ہی لے گی، کپتان کو بہر حال بہت سوچ اور سمجھ سے معاملات کو آگے لے کر چلنا ہوگا کہ معاملات صحیح طور سے عام انتخابات پر منتج ہوں۔ سیاسی استحکام میں ملکی مفاد پنہاں ہے، ذرا سی بھی بھول چُوک حالات کا رُخ بدلنے اور مزید انتشار کا سبب ہو سکتی ہے۔
٭٭٭