عالمی سطح پر دیکھا جارہا ہے کہ آمرانہ سوچ کے مالک سیاسی رہنمائوں کو مشکلات کا سامنا ہو رہا ہے۔ اس کے بنیادی وجہ سوشل میڈیا کا بڑھتا ہوا رحجان ہے۔ عام آدمی کی پہنچ نے کسی سیاستدان کی نجی زندگی کو بے پردہ کرنے کے ساتھ انکے ماضی کے ارشادات کو بھی عوامی سطح پر تازہ رکھا ہے۔ اب دنیا ایک عالمی گائوں بنتا جارہا ہے۔ جنوبی افریقہ کی نسل پرست اقلیت کا سیاہ فام اکثریت کے استحصال نام دیا گیا تھا لیکن جنوبی افریقہ میں پارتھائڈ کے رحجان کے خاتمہ کے بعد عوامی برداشت میں کہی ہوئی ہے اب ظلم و زیادتی چاہے اقلیت کے خلاف ہو ایک طبقہ کی دوسرے طبقہ کے خلاف ہو مرد کی صنف نازک کے خلاف ہو کسی طاقتور کو کمزور کے خلاف ہو۔ عوام اب برداشت کرنے کا مادہ کھو چکی ہے۔ کسی جبر کو کسی قسمت پر قبول کرنے کیلئے تیار نہیں۔ایران اور صدام حسین عوام کے ایک حصہ میں مقبول ہونے کے باوجود عبرت کا نشان بنائے گئے۔ حالیہ دنوں میں اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے خلاف اسرائیل میں پر تشدد احتجاج میں عوام کی ایک بڑی تعداد نے عدالتی اصلاحات کے نئے قانون کیخلاف سڑکوں پر نکل کر یہ ثابت کردیا کہ عوام کو آپ بیوقوف نہیں بنا سکتے اور اجتماعی عقل کا کوئی نعم البدل نہیں ہوتا۔ حالیہ دور میں امریکی سابق صدر ٹرمپ کو کئی مقدمات کا سامنا ہے جس میں کچھ مقدمات میں انہیں سزا ہونے کے قوی امکانات موجود ہیں حالانکہ انکی عوامی مقبولیت میں کوئی کمی نہیں آئی لیکن کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہے۔ اسی طرح بھارتی وزیراعظم کی مسلم کش پالیسی کیخلاف ہندو اکثریت میں بھی اب عوامی شعور میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے۔ اور انتہا پسند ہندوئوں کو چھوڑ کر اعتدال پسند ہندو جانتے ہیں کہ یہ سوچ ہندوستان کو انتہا پسندی کی طرف دھکیل کر عالمی سطح پر تنہا کردیگی۔ اس طرح پچھلے برس سے روسی صدر پیوٹن کی یوکرائن پر قبضہ کرنیکی کوشش کو بیشتر عالمی قوتوں نے تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اور پیوٹن کی اندرونی طور پر سیاسی مخالفوں کیخلاف پرتشدد کارروائیوں کے باوجود اب روسی عوام نے بھی پیوٹن پر کھل کر تنقید کرنا شروع کردی ہے۔ پاکستان میں بھی عمران خان کو اپنے مخالفین پولیس افسران اور ججز کو دھمکیاں اب تو موصوف نے فوج کے اعلیٰ افسران کو بھی کھلا کر برُا بھلا کہنا شروع کردیا ہے۔ ویسے بھی عمران خان ایک بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ ہونے کے باوجود”ون مین شو” کی بنیاد پر تحریک انصاف کو چلا رہے ہیں۔ وہ فرد واحد یعنی عمران خان کی مرضی کے مطابق جماعت کے معاملات کو چلاتے ہیں اور مخالفین کو چور ڈاکو کے القابات سے نوازتے ہیں لیکن جنہیں ماضی میں انہوں نے پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو کہا اسے اپنی مرضی سے اپنی جماعت کا مرکزی صدر بنا دیا اور بیچارے شاہ محمود قریشی، اسد عمر اور کئی سینیٹرز پارٹی رہنما لٹکے چہرے کے ساتھ خان صاحب کا منہ تکتے دیکھتے رہ گئے۔ کبھی وہ شیریں مزاری کو اپنی غیر حاضری میں پارٹی معاملات کی نگرانی کا کہہ دیتے ہیں۔ نہ کوئی سینٹرل کمیٹی نہ کوئی منشور کمیٹی نہ کوئی ایڈوائزری بورڈ، خان صاحب دراصل کسی کو اس قابل ہی نہیں سمجھتے۔ جاگیردار نہ ہونے کے باوجود سیاسی جماعت تحریک انصاف کو اپنی جاگیر سمجھ کر چلا رہے ہیں۔ ان تمام آمریت پسند رہنمائوں میں ایک قدر مشترک ہے کہ یہ تمام لوگ اپنی ذات میں تنہا اور ڈپریشن کا شکار لوگ ہیں۔ انکے اپنے قریبی عزیز رشتہ داروں سے تعلقات بہتر نہیں رہتے ،یہ لوگ زندگی کے ساتھی کے معاملے میں بھی زیادہ اچھی قسمت نہیں رکھتے۔ نفسیاتی طور پر عدم استحکام کا شکار ہیں اور کسی پر اعتماد نہیں رکھتے نہ اپنے تعلق کو نبھانے کی طاقت یا قوت رکھتے ہیں۔ دھوکہ فریب اور دوغلہ پن سے بھرپور ہوتے ہیں۔ کتے کے وفادار سمجھتے ہیں انسانوں پر کم ہی اعتبار کرتے ہیں۔ اس آمرانہ سوچ رکھنے والے لوگوں کی ذاتی زندگی بڑی قابل رحمMISERABLEہوتی ہے۔ حسن اخلاق کا فقدان اور دوسروں کو حقیر سمجھنا انکے مزاج کا لازمی حصہ ہوجاتا ہے۔ کیونکہ یہ احساس کمتری جو بڑھ کر احساس برتری بن جاتی ہے۔کا شکار ہوتے ہیں۔ اقتدار میں بھی مشاورت سے گریز کرتے ہیں اپنے کو عقل کل سمجھتے ہیں۔یہ خامیاں ایک عام انسان کی زندگی بھی جہنم بنا دیتی ہیں۔ لیکن سیاستدان کیونکہ ملکوں کے مستقبل پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ اس لئے اسی خامیاں رکھنے والے سیاستدان ایک ملک کیلئے بدقسمتی کا پیغام بن جاتے ہیں۔ خاص طور پر اقتدار میں آکر وہ کسی طاقتور ملک کو بھی تباہی کے دہانے پر لے آسکتے ہیں۔ اگر ہٹلر کی حاکمیت میں جرمنی کی مثال سامنے رکھیں تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ جرمنی جو چند طاقتور عالمی طاقتوں میں شامل تھا ہٹلر کی حکومت اپنی طاقت کے شعبہ اور عقل قل ہونے کے شبہ میں جرمنی کو دولخت کرکے دو اور عالمی طاقتوں کی حکومت میں رہنے پر مجبور ہوگیا تھا۔ اسی لئے ضروری ہے کہ اپنے رہنمائوں کے چنائو میں قوم کو احتیاط کی ضرورت ہے۔
٭٭٭٭