قرآن سے تعلق!!!

0
72

قرآن کیا ہے ؟ قرآن اللہ رب العالمین کی کتاب ہے ! جس نے ساری کائنات کو پیدا کیا ہے ہم کو اور آپ کو پیدا کیا ہے اور ہر نعمت سے آراستہ و پیراستہ کر کیا ۔ جسمانی صلاحیتیں ، طاقتیں ، ماحول سے خوشیاں اور فوائد سمیٹنے کے لیے حالات مہیا کر دیے ہیں بہن بھائی عزیز رشتہ دار شوہر بچے خاندان برادری سوسائٹی کمیونٹی سب کچھ عطا کر دیا ہیان ساری چیزوں کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنے ظاہری اور باطنی خوبیوں کو اُبھارنے اور ظاہری اور باطنی خامیوں سے نمٹنے کے لیے اپنے رسولۖ کے ذریعے سے کلام پاک وحی کے ذریعے بھیجا تاکہ رہتی دنیا تک انسانوں کو ہدایت پہنچانے کا کام کرے ۔
ہم سب کو معلوم ہے اور مسلمان ہونے کے ناطے ہمارا ایمان ہے کہ انبیا کا سلسلہ اب ختم ہو چکا ہے ،رہتی دنیا تک اب قرآن ہی کے ذریعے لوگوں کو ہدایت ملتی رہے گیجیسا کہ حدیث میں واضح ہوتا ہے زید بن ارقم نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے مدینہ کے درمیان ایک پانی کے چشمے کے کنارے ہم سے تقریر فرمانے کھڑے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالی کی حمد و ثنا کی ،نصیحت فرمائی ،اور خدا آخرت کی یاد دہانی کی ،پھر فرمایا امابعد لوگو سنو ! میں بھی ایک انسان ہوں بعید نہیں کے میر ے رب کا قاصد ملک موت آئے اور میں اس کی دعوت پر لبیک کہوں میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ان میں سے پہلی اللہ کی کتاب ہے جس میں ہدایت اور نور ہے تو کتاب اللہ کو مضبوطی سے پکڑو اور اس سے وابستہ ہو جا ایک اور روایت میں ہے کہ اللہ تعالی کی کتاب ہی اللہ کی رسی ہے جس نے اس کی پیروی کی ہدایت یاب ہوا اور جس نے اسے چھوڑ دیا وہ گمراہ ہوا اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالی کی کتاب ہی وہ مضبوط رسی ہے جسے پکڑنے سے ہدایت حاصل ہوتی ہے اس لئے اس کا پڑھنا اس کا سمجھنا اس پر عمل کرنا ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے قرآن ہی وہ رسی ہے جو اللہ کو بندے سے اور خدا پرست بندوں کو آپس میں جوڑے رکھتی ہیقرآن میں اللہ تعالی فرماتے ہیں واعتصیمو بحبل اللہ جمیعا ولا تفرقوا” اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور آپس میں تفرقہ میں نہ پڑو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قرآن کیا ہے جس کو مضبوطی سے تھاماآجائے قرآن ایک نصیحت ہے اب جس کا جی چاہے اس نصیحت کو قبول کرلے، قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں نصیحت کرواگر نصیحت نفع دیجو شخص ڈرتا ہے وہ نصیحت کو قبول کر لے گا اور جو گریز کرے گا وہ بہت بڑا بد بخت یا شقی ہے۔قرآن سے تعلق اور اس کی اہمیت اس لئے ہوں کہ اللہ کی رحمتوں اور برکتوں میں حصہ بنانا چاہتے ہیں دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی مسلم کی حدیث ہے جو لوگ کسی گھر میں جمع ہوکر اللہ کی کتاب پڑھتے اور اسے آپس میں سمجھتے اور سمجھاتے ہیں ان پر اللہ تعالی کی طرف سے سکینت نازل ہوتی ہے اللہ کی رحمتیں انہیں ڈھانپ لیتی ہیں فرشتے ان پر سایہ کرتے ہیں اور اللہ اپنے مقرب فرشتوں میں ان کا ذکر فرماتا ہے جو اس کے پاس ہیں جس شخص کا عمل اسے پیچھے کردے اس کا نصب اسے آگے نہیں بڑھا سکتا ہے سکینت ایک خاص قلبی کیفیت کا نام ہے جو اللہ تعالیٰ سے محبت عقیدت اور اخلاص کی صورت میں انسان کے دل میں پیدا ہوتی ہے یا پھر انسان اپنا سب کچھ اپنے مفادات اپنی خواہشات اپنا جان و مال اللہ کی راہ میں قربان کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے ۔قرآن کو انسان جتنا زیادہ پڑھنے ،سمجھنے اور عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے، قرآن پر عمل کرنا اس کے لیے اتنا ہی آسان ہو جاتا ہے جیسے جیسے ہم قرآن سے تعلق پڑھاتے ہیں قرآن ہم پر اتنا ہی واضح اور منکشف ہوتا چلا جاتا ہے ،اس سے رغبت پیدا ہوتی ہے اس کی محبت ،رسول کی اطاعت ،اور اللہ کے قدرت ،جہنم کا خوف ،جنت کی طلب ،اور اس کے لئے کوشش کرنے کی ہمت حوصلہ لگن جستجو پیدا ہوتا چلا جاتا ہے قرآن کی اہمیت کا اندازہ بخاری و مسلم کی اس حدیث سے ہوتا ہے،آپ نے فرمایاانبیا میں سے ہر نبی کو کچھ معجزات دئیے گئے جن کے مطابق لوگ ان پر ایمان لے آئے میرا معجزہ جو مجھے دیا گیا وہ میرا و حی ہے جو مجھ پر نازل کیا گیا جو اللہ نے میری طرف بھیجیا ہیاور مجھے امید ہے کہ قیامت کے دن میرے پیروکار تمام انبیا سے زیادہ ہوں گے ، قرآن کو کسی بھی پہلو سے دیکھیں یہ ہمیں معجزہ ہی نظر آئے گا آج تک چودہ سو سال گزر جانے کے بعد بھی اس میں زیر زبر کا فرق نہیں آیا یہ بھی اس کا ایک معجزہ ہے دنیا کے کسی بھی خطے کے چھپے ہوئے قرآن یا لکھے ہوئے قرآن کو ہم دیکھیں اس میں زیر زبر پیش کا بھی کوئی فرق نہیں ہوگا ایک دفعہ کچھ عیساء آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور دریافت کیا کہ موسی و عیسی علیہ السلام کو تو ایسا معجزہ دیا گیا تھا آپ کیا معجزہ لے کر آئے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ آل عمران کی آخری رکوع کے چند آیات کی تلاوت فرمائی اور کہا یہ میرا معجزہ ہیپھر یہ کہ جب مسلمانوں نے اس قرآن کو پڑھا عمل کیا اللہ نے ان کو بلندی دی اور جب چھوڑ دیا تو ذلت اور پستی میں جا پڑے حدیث میں ہے اس قرآن کے ذریعے اللہ تعالی بہتوں کو بلندی عطا فرماتا ہے اور بہتوں کو پستی ۔
قرآن سے تعلق پیدا کرنے ،بڑھانے اوراس کو قائم رکھنے کہ کیا کیا طریقے ہو سکتے ہیں اس کے تین ہو سکتے ہیں ۔ قولی ، قلبی ،عملی ،قولی قرآن پڑھو کیونکہ یہ اپنے پڑھنے والے کیلئے قیامت کے دن سفارشی بن کر آئے گا حدیث میں ہے کہ آپ کے حق میں حجت ہو گا یا آپ کے خلاف ایک اور حدیث میں فرمایا قیامت کے دن قرآن کو اور اہل قرآن کو جو قرآن پر عمل کرتے ہیں لایا جائے گا آگے سورہ بقرہ اور آلعمران ہونگے جو ان پر سایہ کریں گے اور وہ عمل کرنے والوں کی طرف سے حجت کریں گے، ایک اور حدیث میں فرمایا اہل قرآن سے کہا جائے گا قرآن پڑھتے جا اور سیڑھیاں چڑھتے جا ئوجہاں تم ٹہروگے وہی تمہارا مقام ہوگااور قرآن کو اسی طرح پڑھنا جس طرح دنیا میں تم ٹھہر ٹھہر کر ترتیب سے پڑھتے تھے۔
سورہ مزمل میں اللہ تعالی نے فرمایاہے قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کرو حدیث میں ہے قرآن کا ماہر قرآن لکھنے والے نیک فرشتوں کا ہم مرتبہ ہے اور جو شخص قرآن کو اٹک اٹک کر پڑھتا ہے اس کے لئے دوہرا اجر ہے ،قرآن کی مختلف سورتوں کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف فضیلت بتائی ہے، سورہ ملک کے بارے میں فرمایا یہ قبر کے عذاب سے بچانے والی سورت ہے، سورہ فاتحہ ۔اس کی مثل کوئی سورت نازل نہیں کی گئی،آیت الکرسی کے بارے میں فرمایا یہ تمام آیتوں کی سردارہے،سور بقرہ کے بارے فرمایا گیا یہ اپنے پڑھنے والوں پر قیامت کے دن سایہ کرے گی،قل ہو اللہ احد کی تعریف فرمائی کہ ایک تہائی قرآن ہے۔
سورہ الکہف کے بارے میں فرمایا گیا کہ اس کا نور ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ تک رہتا ہے اپنے پڑھنے والوں کے لیے جو کوئی اس کی تلاوت کرتا ہے اور اگلے جمعہ سے پہلے اگر اس کی موت آگئی تو یہ سارا نور اس کی قبرمیں اتار دیا جاتا ہے اس کے علاوہ مختلف انبیا کی دعائیں ہیں جو کہ ہمارے لئے بہترین زاد راہ ہیں
قلبی اور ذہنی لگا قرآن کی محبت دل میں بسانا ۔اس کو یاد کرنا ۔اس کو حفظ کرنا ۔وعید کی آیات پر رونا اور خوف کھانا بشارت کی آیات پر خوش ہونا ہر کام کرتے وقت ذہن میں رکھنا کہ اس کام کا قرآن میں حکم دیا گیا ہے یا نہیں ؟اس کے خلاف کرنے سے بچیں اگر کسی کو کرتے دیکھیں تو منع کریں ۔ ابن عمر نے سورہ البقرہ آٹھ سال میں ختم کی،عملی تعلق یہ ہے کہ خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ تم میں بہترین وہ ہے جس نے قرآن کا علم حاصل کیا اور اس کی تعلیم دوسروں کودی ۔اللہ کے بندوں میں اس سے ڈرنے والے علما ہی ہیں ۔بخاری اور مسلم میں ہے کہ رشک کے قابل دو آدمی ہیں جن پر شک کیا جا سکتا ہے ایک وہ جسے اللہ نے قرآن کا علم دیا ہو اور وہ دن رات اسے قائم کرتا ہے اور دوسرا وہ شخص جسے اللہ نے مال دیا ہو اور اس کو شب و روز اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہو، قرآن کی دعوت ۔محمد نے فرمایا میرے واسطے سے آگے پہنچا، چاہے ایک آیت ہی سہی ،دعا ہے کہ ہم اللہ کے قرآن کو پڑھنے ،سمجھنے ،عمل کرنے والے اور اس کو پھیلانے والے ہوں اور ہمارے نسلوں میں اللہ تعالیٰ ایسے لوگ پیدا کرتے رہے جو قرآن کو اپنی زندگیوں میں بھی نافذ کریں اور قرآن کے قوانین کواللہ کی زمین پر غالب ونافذ کریں ،امین یا رب العالمین!
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here