ہم نے اپنے گزشتہ کالم میں وطن عزیز کی سیاسی صورتحال اور عدم استحکام کی کشیدگی پر اظہار خیال کرتے ہوئے اس امر کی نشاندہی کی تھی کہ موجودہ حالات کے باعث 14 مئی کو پنجاب میں انتخابات تو درکنار اکتوبر میں بھی عمومی انتخابی مرحلے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے جبکہ عدالت عظمیٰ اور چیف جسٹس اپنے 14 مئی کے حوالے سے کئے گئے فیصلے پر سیاسی اسٹیک ہولڈرز کے درمیان مذاکرات و مفاہمت کے باوجود متذکرہ فیصلے پر قائم ہیں۔ ہماری اس تحریر کے وقت 14 مئی میں صرف 3 دن رہ گئے ہیں اور صورتحال یہ ہے کہ نہ سیاسی فریقین کے درمیان کوئی مفاہمتی رویہ یا اتفاق نظر آتا ہے اور نہ ہی الیکشن کمیشن یا نگران حکومت کے کوئی اقدامات نظر آتے ہیں۔ دوسری جانب چیف جسٹس نے اقلیتوں کے دستوری حقوق سے متعلق کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے سابق چیف جسٹس کارنیلئس اور پارلیمان کے حوالے سے کیس کی نظیر دیتے ہوئے واضح کر دیا ہے کہ عدالت کا فیصلہ حتمی ہوتا ہے اور فوری نہ ہی سہی فیصلے پر عملدرآمد لازم ہوتا ہے۔ چیف جسٹس کے ریمارکس اس فیصلے کا اعادہ ہے کہ 14 مئی کا فیصلہ قائم ہے۔ وفاقی حکومت، الیکشن کمیشن اور نگران پنجاب حکومت کی اس فیصلے پر عدم تعمیل کن نتائج کو جنم دیگی خصوصاً موجودہ صورتحال میں جب دو آئینی ادارے یعنی پارلیمان اور عدالت عظمیٰ ایک دوسرے کے مقابل صف آراء نظر آرہے ہیں۔ ہمارے حساب سے تو اسی ہفتے بہت سے کھڑاک ہوتے نظر آرہے ہیں جو موجودہ حکومت بالخصوص وزیراعظم کیلئے ہی بُرا وقت لائینگے بلکہ مزید سیاسی عدم استحکام اور بدترین صورتحال کا سبب بن سکتے ہیں بلکہ ریاست و جمہوریت کا نقشہ بھی بدل سکتے ہیں۔ ہماری پیش بینی بلا سوچے سمجھے ہرگز نہیں، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ریاست کے اہم ترین ستونوں میں باہمی اتفاق کے برعکس اس قدر دراڑیں پڑ چکی ہیں اور آئینی، قانونی و سیاسی تقسیم اس حد تک ہو چکی ہے کہ جو کسی بھی بڑے بحران کا مؤجب ہو سکتی ہے۔ موجودہ حکومتی ٹولہ کسی بھی طرح انتخابات کرانے پر آمادہ نظر نہیں آتا اور مختلف جواز و حیلوں بہانوں سے اپنے مفاداتی اقتدار کو برقرار رکھنے پر مُصر ہے یہاں تک کہ پارلیمان کی آڑ میں چیف جسٹس و دیگر جج صاحبان پر بھی مخالفانہ حرکات و اقدامات سے محاذ آرائی کے حربے آزما رہا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال جسٹس مظاہرکیخلاف پبلک اکائونٹس کی اثاثہ جات کے حوالے سے کارروائی ہے جبکہ آئین و قوانین کے مطابق منصفین کے حوالے سے اس طرح کی کسی بھی کارروائی کا اختیار صرف اور صرف سپریم جوڈیشل کونسل کاہے۔ حکومت کا یہ رویہ اور عدالت عظمیٰ کے احکامات و فیصلوں سے انحراف، چیف جسٹس کے حلیمانہ، دانشمندانہ اور بردبارانہ کردار کے باوجود حالات کی نشاندہی کر رہا ہے کہ بس اب بہت ہو چکا اور اس ہفتے میں عدالت عظمیٰ وہ فیصلے کر سکتی ہے جو موجودہ حکومت کیلئے بڑے کھڑاک کا سبب ہو سکتے ہیں۔ ہمارا تجزیہ تو یہ ہے کہ موجودہ حکومت جان بوجھ کر یہ کھیل کھیل رہی ہے کیونکہ حکومتی ٹولے خصوصاً شریفوں کو یقین ہے کہ ملک کی موجودہ مقبول ترین سیاسی پارٹی اور محبوب ترین عوامی قائد عمران خان کیخلاف ان کی سیاسی دال گلنے اور عوامی حمایت کا امکان صفر ہے، لہٰذا عدلیہ سے لڑائی مول لے کر سیاسی شہید بن جائیں اور اپنی برباد ہوتی ساکھ کو بچا سکیں۔
عمران خان حکومتی ٹولے کی مکارانہ اور دشمنانہ سرگرمیوں کے باوجود دن بدن اپنی مقبولیت کی حدوں کی انتہاء کو پہنچ چکا ہے اور سینکڑوں مقدمات، ظلم و بربریت اور جان کو خطرات کے باوجود اپنے عزم و عمل پر مضبوطی سے قائم ہے اور ساری قوم اس کیساتھ صف آراء ہے۔ 14 مئی کو انتخابات نہ ہونے کی صورت میں عمران کی احتجاج کی کال، ریلی اور مظاہروں کی اپیل پر پاکستان بھر میں عوام کا جو سیلاب اُمڈا ہے، اس نے ان نامقبولوں کی نیندیں حرام کر دی ہیں اور پی ٹی آئی کے لوگوں اور ہمدردوں پر ظلم و تشدد کی انتہاء کر دی گئی ہے، اسلام آباد کی پُر امن ریلی میں جس طرح خواتین اور نو عمر بچوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے زخمیوں کو طبی امداد دینے کے برعکس انہیں تھانے میں لے جا کر گھنٹوں ذہنی اذیتیں دی گئیں۔ کیا متمدن اور زندہ معاشروں میں ایسا ہوتا ہے یا پھر نا اہل حکمران اس روش پراُتر آئے ہیں جو کشمیریوں اور فلسطینی مسلمانوں کیساتھ بھارتی و صہیونی حکومتوں اور فوجوں کی ہے۔ اس ظلم و بربریت پر لعنت ہی بھیجی جا سکتی ہے کہ ہم اس کے سواء کچھ کر بھی نہیں سکتے۔
حالات جس بدترین و انتشار کی طرف جا رہے ہیں اس پر محب وطن پاکستانی و میڈیا جس اضطراب و اندیشے کا اظہار کرتے رہے ہیں اس سے قارئین بخوبی واقف ہیں لیکن اب بیرونی ذمہ داران، عہدیداران، منتخب نمائندگان بھی اظہار تشویش کر رہے ہیں اور پاکستان کی ترقی و استحکام کیلئے سیاسی استحکام کی ضرورت پر زور دیا ہے اور آئینی و جمہوری راستے کا مشورہ دیا ہے چینی وزیر خارجہ کے پاکستان آمد پر بالخصوص ون بیلٹ ون روڈ اور گوادر جیسے منصوبوں کی تکمیل و کامیابی کے حوالے سے مشورہ اور امریکہ کے عہدیداران و منتخب نمائندگان کے بیانات بڑی مثال ہے۔ توقع یہ تھی کہ ریاست کا سب سے مضبوط اور غیر متنازع و ملکی سلامتی کا ضامن ستون جس نے سیاست سے لاتعلقی کا اعادہ کیا ہے حالات کی بہتری و سیاسی و معاشی استحکام کیلئے اپنا فرض منصبی کردار ادا کریگا لیکن وائے قسمت کہ عمران خان کے اپنے اوپر وزیرآباد میں قاتلانہ حملے اور ابھی بھی جان کو خطرے کے حوالے سے اپنے عوام سے خطاب میں متعلقہ ایجنسی کے ذمہ دار کا نام لینے پر آئی ایس پی آر / فوج کے ترجمان نے چیئرمین پی ٹی آئی کا نام لے کر اسٹیبلشمنٹ کے ذمہ داران کیخلاف غیر ذمہ دارانہ الزامات لگانے کی بنیاد پر عملی و قانونی اقدامات کا عندیہ دیا۔ ہمارا تجزیہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کا یہ اعلامیہ پاکستانی عوام کو سننے کیلئے نہیں بلکہ عالمی قوتوں اور متعلق اداروں کو پیغام دیا گیا ہے کہ مقتدر قوتوں کو عمران خان کسی صورت قبول نہیں، لیکن کیا موجودہ حالات میں ممکنہ ہے کہ عمران اور پی ٹی آئی کو سیاسی و مقامی منظر نامہ سے باہر کر دیا جائے۔ اور کیا اس طرح پاکستانی سیاسی بحران ان حدوں کو نہیں پہنچ جائے گا۔ جو سری لنکا کی طرح نتیجے پر پہنچے۔ منگل کو عمران خان کی گرفتاری اور پُرتشدد طریقے سے دنیا کے کسی بھی قانون، انسانی حقوق اور اخلاقیات کی جوتوہین کی گئی وہ ناقابل قبول ہے، اور عدالت کی بھی توہین۔اس کے بعد جو کچھ ہوا اور جس طرح عوام نے عمران خان سے اپنی محبت کے اظہار میں احتجاج کیا، فوج کے ہیڈکوارٹر، تنصیبات ودیگر معاملات کا حشر کیا وہ اس بات کی حقیقت ہے کہ محاذ آرائی عوام اور فوج کے درمیان پہنچ چکی ہے، حکومتی ٹولے کی یہ سازش کسی بھی طرح ملک اور قوم کیلئے مفید نہیں۔ اب تک کی صورتحال میں جہاں ایک طرف اسٹیبلشمنٹ کا وقار متاثر ہوا ہے۔ وہی دوسری جانب پی ٹی آئی کے لوگوں ہمدردوں اور عوام کے ساتھ جو ظالمانہ سلوک ہوا ہے بہت تشویشناک ہے۔ عمران خان کی ضمانت تو ہوجائے گی،لیکن کیا عوام اور فوج کے درمیان جو خلیج پیدا ہوگئی ہے وہ بھری جاسکتی ہے۔ جو کچھ کپتان کی گرفتاری پر ردعمل آیا ہے، وہ بھٹو شہید کی گرفتاری اور پھانسی پر بھی نہیں آیا تھا۔ عمران خان کی عوام میں اس قدر محبت ہے کہ وہ اس کی حفاظت کیلئے اپنی جانیں نچھاور کرنے سے بھی نہیں چُوکیں گئے۔ بکتر بند، ٹینک، راکٹ اور ایف16بھی انسانی شیلڈ کے آگے بیکار ہوجاتے۔ ہماری ملک کے سب سے اہم ادارے سے درخواست ہے کہ وہ وطن عزیز کے استحکام اور ابتری سے بچنے کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔ کیوںکہ فوج کی طاقت عوام سے ہوتی ہے اور اگر عوام کی مخالف ہوگئے تو نہ ملک کی حفاظت ہوگئی اور نہ ہی قوم کے بیٹوں کی شہادتیں کام آئیگی؟ عوام کے حفاظت اور ملک کی بقاء ہی آپ کا اولین فرض ہے، سیاست نہیں ۔ خدارا پاکستان کو بچائیں۔
٭٭٭