وزیر اعظم شہباز شریف نے امن و امان کی صورت حال پر غور کے لئے بلائے گئے اجلاس سے خطاب کے دوران کہا ہے کہ 9مئی کے واقعات میں جو لوگ ملوث ہیں وہ قانون کی گرفت سے بچ نہیں سکیں گے۔انہوں نے واضح کیا کہ عسکری تنصیبات پر حملہ کرنے والوں کے مقدمات فوجی عدالتوں میں سنے جائیں گے جبکہ سول تنصیبات پر حملوں کے مقدمات انسداد دہشت گردی عدالت میں زیر سماعت ہوں گے۔وزیر اعظم نے کہا کہ ہر قسم کی دہشت گردی کے خاتمے کے لئے سب کو مل کر کام کرنا ہو گا۔ 9مئی کو تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی ایک مقدمے میں گرفتاری کے بعد ان کے حامیوں نے پورے ملک میں مظاہرے شروع کر دیے تھے۔آئین پاکستان ہر شہری کو کسی شکایت کے دور نہ ہونے پر پرامن احتجاج کا حق دیتا ہے۔عمران خان کے حامی اگر ان کی گرفتاری کو غلط یا غیر قانونی سمجھتے ہیں تو ان کے پاس دو راستے تھے۔پہلا راستہ یہ کہ وہ القادر ٹرسٹ کیس میں گرفتار عمران خان کی ضمانت یا بریت کے لئے عدالتی نظام پر بھروسہ کرتے۔دوسرا طریقہ عدالتوں میں شنوائی نہ ہونے کی صورت میں یہ ہو سکتا تھا کہ پرامن احتجاج کیا جاتا۔عمران خان کی گرفتاری کے بعد ان کی جماعت کے باقی رہنما کارکنوں کو رہنمائی فراہم نہ کر سکے۔اس دوران بپھرے ہوئے کارکنوں نے عسکری و سویلین املاک کو نقصان پہنچایا۔جی ایچ کیو راولپنڈی میں داخل ہو کر ہنگامہ آرائی کی گئی۔ لاہور میں قائد اعظم محمد علی جناح کی یادگار جناح ہائوس میں داخل ہو کر کچھ لوگوں نے توڑ پھوڑ کی سامان چوری کیا اشیا کو آگ لگائی اور کور کمانڈر لاہور کی فیملی کو ڈرایا۔اس پر اکتفا نہیں کیا گیا۔وطن کے عظیم ہیرو کیپٹن کرنل شیر خان کا مجسمہ توڑا گیا۔سکیورٹی اداروں اور پولیس کے دفاتر پر یلغار کی گئی۔ ایسا کرنے والوں نے اس بات کو قطعی فراموش کر دیا کہ پاکستان ہمیشہ سے حالت جنگ میں رہاہے اور پاک فوج نے اپنے شہریوں کے جان و مال کو محفوظ رکھنے کے لئے ہزاروں جانیں قربان کی ہیں۔یہ سب واقعات قابل مذمت ہیں۔ اس معاملے کا دوسرا سرا حکومت کی اس صلاحیت اور سوچ کے ساتھ جڑا ہوا ہے جو احتجاج کنٹرول کرنے اور مخالف سیاسی جماعت کے مظاہرین کے ساتھ سلوک پر مبنی ہے۔ تحریک انصاف کی قیادت تواتر کے ساتھ یہ کہتی آ رہی ہے کہ حکومت نے ایک منصوبہ بندی کے ساتھ اس کے کارکنوں کو پہلے اشتعال دلایا اور پھر اہم عسکری و سول مقامات پر حملے کے لئے اپنے لوگ مظاہرین میں بھیجے۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق تحریک انصاف کے سات سے دس ہزار کارکنوں کے خلاف مقدمات درج کر کے انہیں گرفتار کر لیا گیا ہے۔مرکزی اور صوبائی سطح کے عہدیداروں میں سے کسی کی ویڈیو سامنے نہیں آئی جس میں وہ اہم تنصیبات پر حملہ کر رہا ہو یا وہاں توڑ پھوڑ میں مصروف ہو۔پولیس کی جانب سے کئی مطلوب افراد کی تصاویر شائع کی جا رہی ہیں۔ یہ سب عام کارکن یا پی ٹی آئی کے حامی ہو سکتے ہیں۔تحریک انصاف الزام عائد کر رہی ہے کہ پی ڈی ایم حکومت توڑ پھوڑ کے واقعات کی آڑ میں پوری جماعت کا وجود ختم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔یہ صورتحال اس لحاظ سے مزید تشویشناک سمجھی جا رہی ہے کہ حکومتی وزرا گھریلو خواتین اور واقعات سے لاتعلق بہت سے افراد کے ساتھ پولیس کے برے سلوک کی مذمت پر تیار ہیں نہ یہ وعدہ کر رہے ہیں کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو قانون کے دائرے اور تہذیب کے ساتھ کام کرنے کا پابند رکھا جائے گا۔حکومت ریاست کے اختیار رکھتی ہے۔ایک ہیجانی صورت حال میں حکومت نے اب تک جو فیصلے کئے ہیںانہوں نے سیاسی کشیدگی کو کم کرنے کی بجائے بڑھایا ہے۔ فوجی عدالتیں پاکستان آرمی ایکٹ 1952 کے تحت قائم کی جاتی ہیں۔فوج کے حاضر سروس افسران بطور جج فرائض ادا کرتے ہیں۔ ان عدالتوں کی طرف سے سنائی گئی سزا کے خلاف اپیل یا نظرثانی کی درخواست سزا کی نوعیت کے مطابق صرف فوجی حکام یا چیف آف آرمی سٹاف کو دی جا سکتی ہے۔ملک کی اعلی عدلیہ فوجی عدالتوں کی کارروائی یا سزائوں کی بابت کوئی حکم جاری نہیں کر سکتی۔جنوری 2015 میں دو سال کے لئے اکیسویں آئینی ترمیم کے ذریعے مذہبی اور فرقہ وارانہ دہشت گرد تنظیموں سے تعلق رکھنے والے افراد کے خلاف درج مقدمات کی سماعت فوجی عدالتوں کے حوالے کی گئی۔ 2017 میں 23ویں آئینی ترمیم کے ذریعے فوجی عدالتوں کو مزید دو سال کے لئے سماعت کا اختیار دیدیا گیا۔ماہرین کا خیال ہے کہ دہشت گردی کے جرم میں گرفتار افراد کے مقدمات عام عدالتوں کی بجائے فوجی عدالتوں میں چلائے جا سکتے تھے۔ لیکن اس سلسلے میں ترمیم کی مدت سات جنوری 2019 کو ختم ہو چکی ہے۔قانونی طریقہ کار میں کئی اگر مگر موجود ہیں۔ سوشل میڈیا اور مین سٹریم میڈیا پر کئی معصوم شہریوں اور واقعات سے بے خبر کارکنوں کی گرفتاری کی اطلاعات مل رہی ہیں۔یہ قابل قدر امر ہے کہ پاک فوج کی قیادت نے تحمل کا مظاہرہ کیا اور گرفتار افراد کے لئے قانونی طریقہ کار کو ترجیح دی۔ضروری ہے کہ حکومت جیلیں بھرنے اور سیاسی مخالفت کی بنا پر ایسی غلطی سے اجتناب کرے جو ریاست ریاستی اداروں حکومت اور جمہوری نظام کی ساکھ دائو پر لگا دے۔ یہ احتیاط اس لئے بھی ازحد ضروری ہے کہ مہنگائی اور لاقانونیت سے پریشان عوام اپنی عسکری و سیاسی قیادت سے نرم دلی کی توقع رکھتے ہیں۔
٭٭٭