پی ٹی آئی مذاکراتی کمیٹی اور حکومت کی عدم دلچسپی

0
64

تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے حکومت سے مذاکرات کے لئے سات رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے۔عمران خان نے اپنی گرفتاری یا نااہلی کی صورت میں پارٹی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کو پارٹی امور چلانے کی ذمہ داری تفویض کی ہے۔عمر ایوب خان کو پارٹی کا سیکرٹری جنرل اور رئوف حسن کو سیکرٹری اطلاعات مقرر کیا گیا ہے۔حکومت سے مذاکرات کے لئے تشکیل دی گئی کمیٹی میں شاہ محمود قریشی پرویز خٹک اسد قیصر حلیم عادل شیخ عون عباس بپی مراد سعید اور حماد اظہر شامل کئے گئے ہیں۔حکومت کی جانب سے تحریک انصاف کی 25مئی کو مذاکرات کی دعوت اور 27مئی کو مذاکرات کے لئے ترتیب دی گئی کمیٹی پر ردعمل حسب توقع سرد مہری کا ہے۔درپیش صورتحال میں تحریک انصاف کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش اور پھر حکومت کی طرف سے مثبت جواب نہ ملنے کے باوجود مذاکراتی کمیٹی کی تشکیل پر بعض حلقے حیرت کا اظہار کر رہے ہیں۔کچھ حلقے اسے تحریک انساف پر دہشت گردی کے الزامات کا جواب سمجھتے ہیں۔عمران خان کی سیاسی پالیسیوں کے نقاد کہتے ہیں کہ جب ان کے پاس پارٹی اور عوام کی طاقت تھی اس وقت انہیں مذاکرات کی طرف آنا چاہیے تھا۔عمران خان نے اقتدار اور سیاسی طاقت کا وہ دور غیر ضروری احتجاج اور طویل مظاہروں کی نذر کر دیا۔اب جب ان کی جماعت کے لوگ بوجوہ ان کا ساتھ چھوڑ رہے ہیں تو انہیں مذاکرات کا خیال آیا ہے۔ عمران خان کے سیاسی فیصلوں اور مخالف سیاسی جماعتوں کے ساتھ نہ بیٹھنے پر اعتراض کے کئی جواز ہو سکتے ہیں لیکن اس امر سے انکار ممکن نہیں کہ موجودہ سیاسی انتشار کا حل اسی صورت ممکن ہے جب تحریک انصاف سمیت تمام سیاسی جماعتیں ایک میز پر بیٹھیں۔ پاکستان تاریخ کے نازک دور سے گزر رہا ہے۔پہلی بار بیرونی خطرات کی نسبت داخلی خطرات زیادہ پریشان کن نظر آ رہے ہیں۔پاکستانی قوم جو کسی وقت مسلکی اور علاقائی تقسیم کے ذریعے کمزور بنائی جا رہی تھی اب سیاست دانوں کی ضد اور ہٹ دھرمی عوام میں تقسیم کا باعث بن رہی ہے۔ریاست بہرحال سماج کی بنیاد پر استوار ہوتی ہے۔ریاست کے عناصر میں آبادی سب سے اہم ہے۔ جب کسی ملک کی آبادی متحد ہوتی ہے، اس کے سامنے اجتماعی اہداف اور لائحہ عمل ہوتا ہے تو ریاست ترقی کرتی ہے۔حالات جب وطن عزیز جیسے ہو جائیں تو ریاست کا ہر حکم اپنی ساکھ کھونے لگتا ہے۔ پی ڈی ایم کی حکومت 9مئی کے واقعات کے بعد طاقتور ہوئی ہے۔ تحریک انصاف کی غلطی نے پی ڈی ایم کو موقع دیا ہے کہ وہ اپنے مرضی کے فیصلوں پر عملدرآمد کرا لے۔سردست تحریک انصاف پسپا نظر آ رہی ہے۔پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن تجربہ کار جماعتیں ہیں۔انہیں سیاست اختیار اور ریاست کے ساتھ معاملات طے کرنے کا تجربہ ہے۔ان جماعتوں کو بخوبی علم ہے کہ سیاسی قوت کو بالکل ختم نہیں کیا جا سکتا۔خصوصا اس صورت میں تو پی ڈی ایم اپنے مخالفین کو بالکل کمزور نہیں کر سکتی جب وہ ایک سال کے دوران ملکی مسائل حل کرنے میں ناکام دکھائی دیتی ہے۔مبصرین کا خیال ہے کہ کسی طرح سے مسلم لیگ ن یا پیپلز پارٹی اگلے انتخابات جیت بھی جائیں تو یہ جماعتیں عوام کی اکثریتی حمایت سے محروم رہنے کی وجہ سے کمزور رہیں گی۔ ایسی صورت میں ایک دو سال سے زیادہ حکومت برقرار رکھنا محال ہو گا۔ اس صورت حال سے بچنے کے لئے ممکن ہے پی ڈی ایم کے فیصلہ ساز کئی منصوبے ترتیب دے رہے ہوں لیکن اندازہ ہے کہ نتیجہ مختلف نہیں ہو گا۔ تب ساری جماعتوں کو لازمی ایک دوسرے سے بات کرنا ہو گی۔اس وقت تک بہت سا وقت ضائع ہو چکا ہو گا۔کیا بہتر نہیں کہ اب جب تحریک انصاف کمزور ہو رہی ہے اسے سیاسی عمل میں اپنی بقا کا مسئلہ درپیش ہے تو حکومت اس کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کر دے۔مذاکرات کے ایجنڈے میں ریاستی اداروں کے احترام میثاق معیشت دھاندلی سے پاک انتخابات اور سیاسی اصلاحات کو شامل کیا جا سکتا ہے۔ جن افراد نے کور کمانڈر ہائوس پر حملہ کیا شہدا کی یادگاروں کی بے حرمتی کی ان کو سزائوں کا عمل شروع ہو چکا ہے لیکن حکومت اس قضیے میں سات ہزار سیاسی کارکنوں کو گرفتار کر چکی ہے۔وزیر داخلہ رات گئے ذرائع ابلاغ کو سیاسی کارکن خواتین کے متعلق ایسے خدشات سے آگاہ کرتے ہیں جو نئے وسوسوں اور افواہوں کا باعث بن رہے ہیں۔صورت حال کو اس درجہ حرارت پر رکھا گیا تو وہ وقت دور نہیں جب حکومت کے لئے اپنے اقدامات کا دفاع مشکل ہو جائے گا۔اس وقت ممکن ہے پی ڈی ایم نے جو طاقت حاصل کی ہے وہ اس کے پاس نہ رہے۔اس لئے مکالمے اور مذاکرات سے گریز نہیں کرنا چاہیے۔ پچھلے دو ہفتوں کے واقعات نے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کو بدترین سطح پر پہنچا دیا ہے۔دوسرے ملکوں میں مقیم پاکستانی وطن میں اپنی جائیداد بیچ رہے اور سرمایہ واپس لے جا رہے ہیں۔غیر ملکی سرمایہ کاری رک چکی ہے۔اگلے ماہ سات ارب ڈالر قرض کی اقساط کی مد میں ادا کرتے ہیں جبکہ خزانے میں صرف 4ارب ڈالر ہیں۔دوست ممالک روز روز کے داخلی جھگڑوں سے تنگ آ کر لاتعلق ہو رہے ہیں۔یہ صورتحال قطعی طور پر حوصلہ افزا نہیں۔سیاسی قوتیں ریاست کا انتظامی چہرہ ہوتی ہیں۔بدحالی بدامنی اور انتشار کو اسی صورت کم کیا جا سکتا ہے جب سب ایک دوسرے کا مینڈیٹ تسلیم کریں آئین کے تحت ملے اختیارات کی حدود میں رہیں اور ذاتی مفاد کو قومی مفاد پر قربان کرنے پر آمادہ ہوں۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here