”احسان اور نسل بینی”

0
8
Dr-sakhawat-hussain-sindralvi
ڈاکٹر سخاوت حسین سندرالوی

اسلام ذات پات کے خلاف ہے، رنگ، نسل، زبان، علاقے اور قوم پرستی کے تعصبات سے بالاتر ہے بلکہ قرآن کا اعلان ہے فضیلت کا معیار تقویٰ ہے ،حضور پاک ص نے حجت الوداع کے موقعہ پر خطبے میں عرب و عجم، کالے گورے، آقا غلام کے امتیازات مٹا دیے تھے، تاہم ہمارے بزرگ بتاتے تھے کہ کچھ ذہنی پست فطرتوں کی کمیاں(خامیاں)سب کچھ پاکر بھی دور نہیں ہوتیں۔ اسی لیے کمین فطرتوں کے ساتھ معاشرت سے منع کیا گیا ہے۔ جب انگریز آرمی میں جوان بھرتی کرتے تو ایسے پیشہ ور کمیوں کو قبول نہیں کرتے تھے جو کل بزدلی دکھا کر میدان چھوڑ جائیں۔ میرے دادا فرماتے تھے کہ کمی کو کمی کی وجہ سے اسے کمی پکارا جاتا ہے۔ کچھ غیر کمی کمیوں کے باعث مزاجا کمی ہوتے ہیں اور کچھ کمیاں دور کرکے اپنی محرومیوں کو بھلا دیتے ہیں ۔ فارسی حکایت ہے صحبت صالح ترا صالح کند و صحبت طالح ترا طالح کند! علامہ نے بھی فرمایا!
ہوئی نہ زاغ میں پیدا بلند پروازی
خراب کر گئی شاہیں بچے کو صحبت زاغ
اس مقدمہ کے بعد اب میں ایک مفید حکایت پیش کرنے لگا ہوں، مشہور ہے کہ ایک بکری جنگل میں چر رہی تھی اسنے دیکھا شیر کا بچہ زخمی حالت میں پڑا ہے اسنے اسکے زخم صاف کیے اور اسے بھوکا پا کر دودھ پلانا شروع کر دیا۔ اسی دوران وہاں سے شیر کا گزر ہوا وہ بکری پر جھپٹنے لگا کہ اسنے دیکھا وہ تو اسکے زخمی بچے کو دودھ پلا رہی ہے اور تیماردار ی کر رہی ہے۔ شیر کو رحم آیا اس نے احسان کے بدلہ کے طور پر راہ گزرتے ہاتھی کو حکم دیا کہ وہ اس بکری کو اپنی پشت پر سوار کرکے پورے جنگل میں پھرایا کرے۔ درختوں کے پتے کھلائے اور پانی پلائے تاکہ پورے جنگل کو پتہ چلے کہ یہ شیر کی محسنہ کے احسان کا صلہ ہے ۔ ایک روز راستے میں بکری کو شاہین ملا اس نے بکری سے پوچھا کہ ہاتھی کی سواری کا راز کیا ہے ؟ تو بکری نے کہا میں نے شیر پر احسان کیا تھا جسکا بدلہ مجھے ہاتھی کی سواری کی صورت میں اس نے دیا ہے اور ساتھ ہی بکری نے شاہین کو تلقین کی کہ تم بھی احسان کرتے رہا کرو ! تاکہ بدلہ ملتا رہے۔ وہ شاہین تھوڑی ہی دور گیا تو کیچڑ میں چوہے کو پھنسا ہوا دیکھا جو سردی سے ٹھٹھر بھی رہا تھا ۔ اسنے احسان کیا اور چوہے کو نکال کر اپنے پروں تلے دبا لیا تاکہ اسکو گرمی پہنچے۔ جب شاہین کو یقین ہوا کہ چوہا بچ گیا ہے تو وہ اڑنے لگا اسنے دیکھا چوہے نے اسکے پر کتر دیے ہیں ۔ وہ جنگل میں خراماں خراماں چل رہا تھا کہ ہاتھی پر سوار بکری کا پھر گزر ہوا ۔ بکری نے پوچھا پر کیا ہوئے ؟ تو شاہین نے کہا تمہارے ہی کہنے پر چوہے پر احسان کیا تھا اسنے نجات پاتے ہی میرے پر کتر دیے تو بکری نے کہا شاہین ! احسان کرتے وقت نسل دیکھ لینی چاہئے۔ہمارے معاشرہ میں کتنے شاہین احسان فراموش چوہوں سے پر پرکٹوالے اڑانیں کھو کر لولہی لنگڑی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور کتنی ہی بکریاں شیر پر احسان کے عوض ہاتھیوں کی پشتوں پر رانیاں بنی پھرتی ہیں، سچ ہے احسان کرتے وقت نسل دیکھ لینی چاہئے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here