اگرعثمانیوں پر کوہِ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے!!!

0
8

عروج و زوال کی اس فانی دنیا میں، روزانہ سورج ایک جانب سے طلوع ہورہا ہوتا ہے اور دوسری طرف غروب پھر غروب کے فورا بعد، طلوع ہونا بھی شروع کر دیتا ہے۔ روزمرہ کا یہ معمول ہمیں سبق دیتا ہے کہ سوا نیزے کا دہکتا ہوا گولہ بھی چند گھنٹوں بعد محض شفق کی سرخی بن جاتا ہے اور دوسری طرف، گھپ اندھیری رات بھی کچھ وقت گزرنے کے بعد صبح کی کرنوں کو راستہ دینے پر مجبور ہوجاتی ہے۔یہ پندھرویں، سولہویں صدی کا قصہ ہے جب تین برِاعظموں پر پھیلی ہوئی، وسیع و عریض خلافتِ عثمانیہ کیلئے نئی دریافت شدہ دنیا (امریکہ) سے لائی ہوئی چاندی، ایک معاشی چیلنج بن گئی تھی۔ ایک طرف تو یہ دور، خلافتِ عثمانیہ کے زوال کا آغاز تھا اور دوسری طرف نئی دنیا کے امریکہ کے عروج کی جانب اٹھنے والے ابتدائی قدموں کی چاپ تھی۔ مرخین نے خلافت کے زوال کے اسباب پر جس طرح صفحے کے صفحے کالے کئیے ہیں، اسی طرح امریکہ کی نئی دنیا کے سپر پاور بننے کی وجوہات بھی بہت تفصیل سے بیان کی ہیں۔ بلکہ شاید رہتی دنیا تک مزید تحقیقی مقالے بھی لکھے جاتے رہیں گے۔ لیکن اقبال نے اپنے ایک ہی شعر میں بہت کچھ سمیٹ دیا ہے۔!
میں تجھ کو بتاتا ہوں تقدیر امم کیا ہے
شمشیر و سناں اول طاس و رباب آخر
خلافتِ عثمانیہ کی وسیع و عریض سلطنت کا چراغ بجھتے بجھتے بھی دو تین صدیاں گزار گیا۔ جنگِ عظیم اول کے بعد، معاہدہ لوزان کے ذریعے، تین مارچ کو خلافتِ عثمانیہ کا وجود سرکاری طور پر ختم کردیا گیا۔ خلافت کو تباہ و برباد کرنے کی کوششوں اور سازشوں میں اپنے پرائے سارے شامل رہے۔ لیکن اس سانحہ عظیم کے بطن سے جدید ترکی کی ایک چھوٹی سی ریاست نے بھی جنم لیا جو آجکل کے گئے گزرے دور میں بھی امتِ مسلمہ کی نشاطِ ثانیہ کی کچھ نشانیاں دکھاتی رہتی ہے۔ آخر اقبال نے بلاوجہ تو یہ نہیں فرمایا تھا کہ!
اگر عثمانیوں پر کوہ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے
کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
جس نئی دنیا کی دریافت کے بعدعثمانیوں پر کوہِ غم توڑا گیا تھا، آج اسی ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں لاکھوں ترک رہائش پذیر ہیں۔ ترک قوم نے چونکہ کبھی غلامی کی زندگی نہیں گزاری، اس لئے ان کے امریکہ میں رہنے سہنے کے انداز و اطوار بھی برِ صغیر اور عربستان کے علاقوں سے آئے ہوئے تارکینِ وطن سے خاصے مختلف ہیں۔ یہی ترک اپنی قدیم وراثت اور تہذیب کی نمائش کیلئے، مئی سے مئی تک شکاگو شہر میں ایک کلچرل فیسٹویل کا اہتمام کر رہے ہیں۔ اطغرل ڈرامہ سیریل کے کئی کردار اس فیسٹیول میں شرکت کرنے کیلئے آرہے ہیں۔ اس فیسٹیول میں عثمانیہ دور کی تہذیب اور رہن سہن کو جدید میڈیا کے مختلف طریقوں سے اُجاگر کیا جائے گا۔
اللہ تعالی کی قدرت کے کرشموں پر حیرانی ہوتی ہے کہ جس نئی دنیا کی دریافت کے بعد عثمانیوں کو انکے تاج و تخت سے محروم کیا گیا تھا، آج ایک صدی بعد وہی عثمانی نسلیں، امریکہ کے ایک جدید ترین کنونشن سنٹر میں اپنے آبائی خیمے نصب کرکے، اپنے گھوڑوں پر سوار ہو کر شہرِ شکاگو میں اپنی تلواروں کی مہارت کا مظاہرہ کریں گے۔ اس فیسٹویل کے انعقاد کے روحِ رواں برادر خلیل دمیر ہیں۔ خلیل بھائی، امریکہ کی مسلم کمیونٹی کی ایک شہرہ آفاق شخصیت ہیں۔ اسلامی تاریخ کے اوراق، انہیں بڑی اچھی طرح حفظ ہیں۔ زکوا فانڈیشن آف امریکہ جیسے بڑے ادارے کے بانی صدر ہیں۔ انکی ساری زندگی دوسروں کی مدد کرتے ہوئے گزری ہے۔ اس فیسٹویل کی سپورٹ، بہت سارے ادارے کرہے ہیں، جن میں ٹرکش ائیرلائین، مائیکا انٹر نیشنل اور دیانت سنٹر قابلِ ذکر ہیں۔
اس فیسٹیول میں جہاں ایک طرف تو فاتح خوجہ، مسعود کرٹس اور دیگر مشہور و معروف فنکار اپنی آواز کا جادو جگائیں گے، وہیں دوسری طرف، ترکیہ سے آئے ہوئے نامور شیف، عوام کے سامنے ککنگ شو کریں گے۔ نوجوانوں اور بچوں کی تفریح کیلئے بطور خاص اہتمام کیا گیا ہے۔ اردو مشاعرہ کے علاوہ ازبک، آذری اور وسطِ ایشیا کی دیگر زبانوں کے سیشن بھی ہونگے۔ ترکیہ کے کچھ بڑے بزنس گروپ بھی اس فیسٹویل میں شرکت کریں گے تاکہ اپنے اپنے کاروبار کو مزید توسیع دے سکیں۔
اس تین روزہ فیسٹیول سے حاصل ہونے والی آمدن اور عطیات سے فلسطین اور خاص طور پر غزہ کے مظلوم اور مجبور عوام کی مدد کی جائے گی۔ اس کے علاوہ فیسٹیول میں ہونے والے زیادہ تر پروگراموں کا مقصد غزہ کے مظلومین کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرنا ہے۔ اس موقع پر شکاگو کی اقبال سوسائٹی بھی ایک سیشن کا اہتمام کرے گی تاکہ اقبال اور ترک قوم کے خاص تعلق پر کچھ روشنی ڈالی جاسکے۔ اسی حقیقت کے مدِ نظر، انکی مشہورِ زمانہ نظم طلوعِ اسلام سے یہ اقتباس حاضر ہے۔
کتاب ملت بیضا کی پھر شیرازہ بندی ہے
یہ شاخ ہاشمی کرنے کو ہے پھر برگ و بر پیدا
ربود آں ترک شیرازی دل تبریز و کابل را
صبا کرتی ہے بوئے گل سے اپنا ہم سفر پیدا
جہاں بانی سے ہے دشوار تر کار جہاں بینی
جگر خوں ہو تو چشم دل میں ہوتی ہے نظر پیدا
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
نوا پیرا ہو اے بلبل کہ ہو تیرے ترنم سے
کبوتر کے تن نازک میں شاہیں کا جگر پیدا
ترے سینے میں ہے پوشیدہ راز زندگی کہہ دے
مسلماں سے حدیث سوز و ساز زندگی کہہ دے
خدائے لم یزل کا دست قدرت تو زباں تو ہے
یقیں پیدا کر اے غافل کہ مغلوب گماں تو ہے
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here