ازخود نوٹس میں حق اپیل کی پامالی !!!

0
58
رمضان رانا
رمضان رانا

سات مارچ اور تین نومبر2007کو جب چیف جسٹس افتخار چوہدری سمیت پوری عدلیہ کو جنرل مشرف نے برطرف کیا تو پاکستان میں وکلاء تحریک نے جنم لیا جس نے آہستہ آہستہ پوری دنیا کی لیگل کمیونٹی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا جس کی حمایت میں پوی دنیا کی وکلا بار میں کھڑی ہوگئیں جس میں امریکن بار انٹرنیشنل بار، برطانوی بار بھارتی بار سرفہرست ہیں جنہوں نے پاکستان کی وکلاء تحریک کا مکمل ساتھ دیا۔ وکلاء تحریک کے بانیان نے بیرون ملک دورے کیئے۔ جس میں بیرسٹر چوہدری اعتزازاحسن پیش پیش تھے جو ہما وقت چیف جسٹس افتخار چوہدری کے ساتھ ساتھ پائے گئے جنہوں نے اعلانیہ کہا تھا کہ مجھے چیف جسٹس افتخار چوہدری کی ڈرائیوری کرنے پر فخر ہے۔ جب سولہ مارچ2009کی عدلیہ بحال ہوئی تھی تو جنرل کیانی نے سب سے پہلے چوہدری اعتزازاحسن سے رابطہ قائم کیا جو اس وقت سابقہ وزیراعظم نوازشریف کے ساتھ ایک ہی گاڑی میں سوار تھے جو وکلاء اور عوام کی لانگ مارچ کو لیڈ کر رہے تھے عدلیہ کی بحالی کے بعد دونوں چوہدریوں کے راستے بدل گئے جب سپریم کورٹ نے پاکستان کے لینڈ مافیا کے سرغنہ ملک ریاض کا مقدمہ سماعت کرنے کا حکم دیا تو چوہدری اعتزازاحسن چیف جسٹس افتخار چوہدری کے مخالف ہوگئے جو ریاض ملک کے وکیل تھے جنہوں نے چیف جسٹس افتخار چوہدری کے ازخودنوٹس کی شدید مخالفت کی کہ ازخودنوٹس سے ملزم کا حق اپیل تلف ہوتا ہے لہٰذا ازخود نوٹس نہ لیا جائے جوکہ سو فیصد صحیح تھا کہ جب تک ملزم کو حق اپیل نہ دیا جائے تب تک عدالت کسی کو بھی سزا یا جرمانہ نہیں کرسکتی ہے۔ حالانکہ چیف جسٹس افتخار چوہدری کے ازخود نوٹسز پر بڑے بڑے وڈیروں رسہ گیروں کو سزائیں دی گئی تھیں۔ جن کے سامنے قانون نافذ کرنے والے ادارے بے بس تھے۔ مگر آئین کے مطابق ملزم کو اپیل کا حق دینا لازم تھا جس کا ذکر آئین میں درج ہے۔بعدازاں جب چیف جسٹس ثاقب نثار نے پانامہ بن گیا اقامہ کیس میں وزیراعظم نوازشریف کو بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر تاحیات نااہل قرار دیا تو وہی چودھری اعتزازاحسن خاموش رہے جو ایک قانون دان کے لئے لمحہ فکریہ تھا کہ آج چوہدری صاحب نے کیوں نہیں آواز بلند کی۔ اسی طرح حال میں جب پاکستان کی پارلیمنٹ نے اپنی قانون سازی میں ازخود نوٹس میں حق اپیل بحال کیا کہ ملزم تو اپیل کا حق دیا جائے تاکہ ملزم ثابت کرے کے فیصلہ غلط ہے یا صحیح ہے تو سپریم کورٹ نے حق اپیل کے سلسلے میں قانون سازی کو کالعدم کردیا ہے۔ جوکہ آئین پاکستان کی مکمل پامالی ہے جس سے عدلیہ کی پوری مہذب دنیا میں مزید بدنامی ہوئی ہے جس پر بھی چودھری اعتزاز احسن خاموش نظر آرہے ہیں حالانکہ عدلیہ کے اس فیصلے کیخلاف پوری وکلاء برداری کو احتجاج کرنا چاہئے تھا کہ عدلیہ نے آئین پاکستان کے پہلے چیپٹر کو اڑا کر رکھ دیا ہے بہرحال قصہ دو چودھریوں اور ازخود نوٹس کے بیان کرنے کا مطلب اور مقصد یہ ہے کہ اگر ازخود نوٹس جسٹس افتخار چودھری کے وقت غلط تھا تو یہ جسٹس ثاقب نیار اور جسٹس بندیال کے وقت بھی غلط ہے جس میں خاموشی ارتکاب جرم ہے جس میں بڑے بڑے وکلاء خاموش نظر آئے ہیں یہ جانتے ہوئے کہ سپریم کورٹ پارلیمنٹ کی قانون سازی کو تب تک کالعدم نہیں کرسکتی ہے جب تک کوئی قانون انسانی اور شہری حقوق کے خلاف نہ بنایا جائے جبکہ موجودہ قانون سازی میں یہ کہا گیا ہے کہ اب ازخود نوٹس ایک چیف جسٹس کی بجائے تین سینئر ترین ججوں کی ایما پر کیا جائے گا دوسرا ازخود نوٹس میں اپیل کا حق دیا گیا جو عین آئین کے مطابق ہے مگر جج بندیال اپنے آپ کو خدا تصور کرتے ہیں جو پوری پارلیمنٹ اور حکومت کو بے بس کر چکے ہیں جوکہ کسی سانحہ سے کم نہیں ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here