صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے ذاتی ٹوئٹر اکاونٹ سے آفیشل سیکرٹ ترمیمی بل اور پاکستان آرمی ترمیمی بل پر دستخط نہ کرنے کے بیان نے پہلے سے الجھی سیاسی صورتحال میں الجھاو بڑھا دیا ہے۔تشویشناک بات یہ ہے کہ اس ٹوئٹ سے قانون سازی کا عمل مشکوک ہوا ،ساتھ ہی صدر کی صلاحیت اور ان کے سٹاف کے متعلق تبصرے شروع ہو گئے ۔ قانونی اور سیاسی تجزیہ کاروں کی آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور پاکستان آرمی ایکٹ میں ترمیم کے بل کے بارے میں مختلف آرا ہیں،ماہرین اس خیال پر متفق ہیں کہ صدر عارف علوی کو مبینہ جعلسازی میں ملوث افراد کے خلاف بروقت کارروائی کرنی چاہیے تھی۔کچھ لوگوں نے یہ بھی کہا کہ صدر مملکت نے اس بابت ‘جعل سازی’ کے دعوے کو پیش کرنے کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کرنے کا فیصلہ کیا، 24 گھنٹے سے زیادہ کی غیر وضاحتی تاخیر کے بعد ان کی ٹوئٹ پر سوال اٹھ رہے ہیں۔ آئینی ماہرین کے مطابق آئین کے آرٹیکل 75 کے تحت صدر کے لئے ضروری ہے کہ وہ بلوں کو دوبارہ غور کے لیے پارلیمنٹ کو واپس کرتے وقت ایک نوٹ لکھیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ صدر کو ایوان صدر کے اہلکاروں کے خلاف فوجداری اور تادیبی کارروائی شروع کرنی چاہیے، اگر فوجداری کارروائی شروع کی گئی تو اس معاملے پر ان کی سنجیدگی کا اندازہ لگایا جائے گا۔ صدر کو قومی اسمبلی کی تحلیل کی وجہ سے “طاقتور پوزیشن” پر رکھا گیا تھا۔ اگر وہ بل واپس کر دیتے تو وہ بنیادی طور پر بلوں کو ختم کر دیتے کیونکہ بل پاس کرنے کے لیے کوئی قومی اسمبلی نہیں تھی۔ کچھ قانونی ماہرین کی رائے میں اگر صدر کسی بل کے متعلق اپنی منظوری نہیں دیتے ہیں، تب بھی ڈیمنگ پروویژن صرف اس وقت شروع ہوتا ہے جب بل پر دوبارہ غور کیا جائے اور پارلیمنٹ کی مشترکہ نشست میں اسے منظور کر لیا جائے۔ آرٹیکل 75(2)۔ غیر دستخط شدہ بل کے ساتھ کوئی خودکار سمجھی جانے والی منسلک منظوری نہیں ہے۔ ایک قانونی رائے یہ ہے کہ آرٹیکل 75 کی اسکیم کے تحت، ” منظوری دوسری بار صدر کو بل بھیجنے سے متعلق ہے، نہ کہ پہلی بار۔چونکہ یہ پہلا دور تھا، اس لیے بل کی قانون میں منظوری کے لیے صدر کی واضح رضامندی ضروری تھی ۔ اس سے کم یہ ہے کہ اسے آرٹیکل 75(1)(b) کے تحت واپس کر دیا جائے۔” صدر علوی کی جانب سے حال ہی میں منظور کیے گئے دو قوانین کے بارے میں چونکا دینے والے دعووں کے بعد بلائی گئی ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں عبوری وزیر قانون احمد عرفان اسلم اور وزیر اطلاعات مرتضی سولنگی نے صدر کے اس موقف کی تردید کی کہ وہ لاعلم ہیں کہ بل واپس کیے گئے ہیں یا نہیں۔ دونوں بلوں پر اپنی قانونی اور آئینی پوزیشن واضح کرتے ہوئے نگران وزیر قانون نے کہا کہ حکومت کو ایوان صدر سے دونوں بلوں میں سے کوئی بھی موصول نہیں ہوا اور اس طرح دونوں قانون بن گئے ہیں۔ وزیر قانون کے مطابق”آئین کے آرٹیکل 75 کے تحت، صدر کے پاس صرف دو ہی راستے ہیں: یا تو بل پر دستخط کریں یا اسے مسترد کر دیں۔ مسترد ہونے کی صورت میں، اسے بغیر دستخط شدہ بلوں کو واپس کرنے کی وجوہات بتانا ہوں گی”۔ وزیر قانون کے مطابق صدر نے ان اختیارات کو استعمال نہیں کیا تھا اور بل ایوان صدر میں زیر التوا رکھے تھے جس کا مطلب تھا کہ 10 دن گزرنے کے بعد وہ خود بخود قوانین بن گئے۔صدر کے ٹویٹ پر تنقید کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ صدر عارف علوی نے دو آپشنز میں سے ایک کا فائدہ اٹھایا تھا لیکن کسی بھی بل کو دس دن تک بغیر دستخط کے چھوڑ کر بلاک کرنے کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔بلوں کو بغیر کسی مشاہدے یا منظوری کے واپس کرنے کی آئین میں گنجائش نہیں ہے۔ ایسا اقدام آئین کی روح کے منافی ہے۔یہ تشویشناک بات ہے کہ صدر نے اپنے ہی ستاف کو بدنام کرنے کا انتخاب کیا ہے۔ صدر کو اپنے اعمال کی ذمہ داری خود لینا چاہئے۔ عوامی حلقوں نے پی ڈی ایم حکومت کی جانب سے اسمبلی تحلیل سے چند روز قبل ڈھیر ساری قانون سازی پر شبہات کا اظہار کیا تھا۔اس بات پر خدشات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے کہ نئی قانون سازی شہری آزادیوں اور جمہوریت کو محدود کرنے کا باعث ہو سکتی ہے۔سابق حکومت کی نا اہلی یہ رہی کہ اس نے اس سلسلے میں پارلیمنٹ یا عوام کو آگاہ کرنے کی بجائے کچھ ذاتی سہولیات کو ترجیح دی۔پارلیمنٹ کی قانون سازی کو یہ اعتبار حاصل ہوتا ہے کہ وہ منتخب نمائندوں کی مرضی اور آئین میںفراہم کئے اصولوں کے مطابق ترتیب دی گئی ہے۔بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ یہ معاملہ کئی نئے بحرانوں کو جنم دے سکتا ہے۔صدر مملکت کا شاید خیال ہے کہ اس قانون کا نفاذ پی ٹی آئی رہنماوں پر مقدمات بنانے میں استعمال کیا جائے گا۔صدر مملکت نے اپنے سیکرٹری پر عدم اعتماد کرتے ہوئے اس کو ہٹانے کے لئے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو خط لکھ دیا ہے۔ممکن ہے سپریم کورٹ اس سارے معاملے کی سماعت کرے لیکن جو بات یاد رکھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ ملک کو آئین کے مطابق چلایا جائے اور سیاسی جھگڑوں میں اداروں کے متعلق شکوک پیدا نہ کئے جائیں۔
٭٭٭