فیضان محدث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ

0
143

محترم قارئین! جی۔ ایم۔ سی فائونڈیشن کی طرف سے چھپنے والا یہ آرٹیکل اعلیٰ حضرت، محدث اعظم پاکستان اور شمس المشائخ نائب محدث اعظم پاکستان رضی اللہ عنھم کے افکار کا امین ہے جن افکار کی تقسیم حضور قائد ملت اسلامیہ، جانشین شمس المشائخ قاضی پیر محمد فیض رسول حیدر رضوی دامت برکاتھم العالیہ صبح و شام کر رہے ہیں۔ وہ افکار محبت مصطفیٰۖ کا بنیادی درس اور انسانی ہمدردی کا آئینہ دار ہیں۔ مسلمان ہونے کے بعد انسانی ہمدردی، محبت اور یگانگت کا درجہ ہے لیکن بدقسمتی سے ہم ان تمام چیزوں سے محروم ہیں حالت یہ ہے کہ آج کا انسان وقت کے وسیع و لامحدود و سمندر میں ایک جزیرے کی طرح تنہا ہے۔ ہم سب جزیرے ہیں۔ ایک دوسرے کے آس پاس ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے ناشناس ہیں۔ ایک دوسرے سے بے خبر، ایک دوسرے سے اجنبی، کروڑوں افراد ہجوم درہجوم اور سارے تنہا، انسانوں کی بھیڑ ہے، انسانوں کا میلہ ہے لیکن ہر انسان اکیلا ہے۔ ہم سب اپنے اپنے مفادات اور مقاصد کے تعاقب میں ہیں، ہم اپنی غرض اور خود غرضی کے غلام ہیں۔ کسی کو کسی سے کوئی سروکار نہیں۔ سب کامیابی کے پجاری ہیں۔ کامیابی آج کے انسان کا مسجود الیہ ہے۔ کامیابی جو حاصل نہیں ہوتی، ایک خوبصورت تتلی ہے جواڑتی ہے اور لوگ بچوں کی طرح اس کے پیچھے پیچھے بھاگتے ہیں۔ اور بچھڑ جاتے ہیں اپنوں سے اور اپنے آپ سے ہم سب مصروف ہیں۔ ہمیں بڑے کام کرنے ہیں۔ ہم بہت سی خواہشات رکھتے ہیں۔ ہم بڑی اذیت میں ہیں۔ ہم سب کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ہمیں کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ ہمارے پاس وقت نہیں کہ ہم آرا کرسکیں۔ سکون کی تلاش میں ہم بے سکون ہیں۔ آرام کی تمنا ہمیں بے آرام کر رہی ہے۔ محفلوں کی آرزو ہمیں تنہائی تک لے آتی ہے۔ دل بجھ جائے تو شہر تمنا کے چراغاں سے خوشی حاصل نہیں ہوتی۔ ہم تیزی میں ہیں۔ ہم جلدی میں ہیں۔ ہم جمع کرتے ہیں۔ مشکل وقت کے لئے پس انداز کرتے ہیں۔ پھر مشکل وقت کا انتظار کرتے ہیں۔ اور وہ مشکل وقت ضرور آتا ہے۔ ہم جلدی میں ہیں ہم تیز رفتار ہیں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی خواہش میں ایک دوسرے سے علیحدہ ہوتے جارہے ہیں۔ بھائی بھائی میں مقابلہ ہے۔ مقابلہ کرنے کی خواہش معاون سے محروم کر دیتی ہے۔ ہم صرف اپنے لئے زندہ ہیں۔ اپنی ذات میں گم۔ اپنے اپنے سفر پر گامزن آسمان کے کروڑوں ستاروں کی طرح اپنے اپنے مدارس میں گردش کر رہے ہیں۔ ایک دوسرے سے فاصلے بڑھتے جا رہے ہیں۔ ہم ایک دوسرے کو ہلاک کرتے جارہے ہیں۔ وسائل کی ناہموار تقسیم محرومیاں پیدا کر رہی ہے۔ ہم اپنے آپ کو زندگی سے محروم کرتے جارہے ہیں۔ ظاہر کی کامیابیاں اندر کی گھٹن کب تک چھپائیں گے۔ اندر کا انسان سسک رہا ہے پلک رہا ہے ہم اس کی آواز سنتے ہیں لیکن اپنے کانوں پر اعتبار نہیں۔ ہم اپنے باطن کو ہلاک کرکے کامرانیوں کے جشن مناتے ہیں۔ ہم اپنے روحانی وجود سے فرار کر رہے ہیں۔ ہم نے کئی چہرے رکھے ہوئے ہیں۔ ہم ہمدردی سے نا آشنا ہیں۔ ہم اپنے اندر کی آواز کو خاموش کرا دیتے ہیں۔ اور پھر ضمیر کے کسی دبائو سے آزاد ہو کر ہم اپنی تنہائی کے سفر پر روانہ رہتے ہیں۔
ہماری زمین خطوں، علاقوں اور ملکوں میں تقسیم ہو کر رہ گئی ہے۔ ایک ایک انچ تقسیم ہوچکا ہے قوموں کے لئے ممالک ہیں۔ لیکن انسان کے لئے کوئی خطہ نہیں انسان اکیلا ہے محروم ہے اپنی خلافت ارضی سے پہاڑ، دریا، سمندر سب تقسیم ہوگئے ہیں۔ انسان کے لئے صرف آسمان ہی رہ گیا ہے۔ دیوتا بننے کی خواہش میں ہم انسان ہی نہ رہے۔ ہم تکلیف ہیں۔ ہم اپنے گھروں میں مہمانوں کی طرح رہ رہے ہیں۔ ہم اپنے دیس میں غریب الدیار ہیں ہم آج کی تہذیب ہیں۔سہمی ہوئی تنہائی، صمرا کی شام اور تنہا مسافر، اپنی آواز سے خوف پیدا ہوتا ہے۔ اپنے وجود سے ڈر لگتا ہے۔ یاد ماضی خوف زدہ کرتی ہے اور مستقبل ایک اور تنہائی، ہماری تنہائی پر رحم فرما میرے مولا۔ ہمیں انسان کی پہچان عطا فرما۔ ہمیں انسانوں کی قدر کرنا سکھا۔ ہمیں انسان سے محبت کرنا سکھا ہمیں انسانوں کی خدمت کرنا سکھا۔ ہمیں زندگی کی عزت کرنا سکھا۔ ہمیں ہماری ذات سے نجات دے۔ ہمیں عاقبت سے غافل نہ کر۔ ہمیں وفا سکھا۔ کیوں کہ وفا تنہا نہیں ہوتی ہمیں صداقت فکر دے اور صداقت ذکر دے۔ ہم پر عظمت انسان آشکار کر کہ یہی ایک راستہ ہے تنہائی کے کرب وغم سے نجات کا اے مالک ہمیں ایک دوسرے پر بھروسہ کرنا سکھا۔ ہمارے باطن سے شکوک وشبہات دور کر۔ ہماری تنہائیوں کو آباد کر۔ ہمیں ایک عقیدہ دیا ہے کہ ہم تجھے ایک مانتے ہیں۔ تیرے پیارے محبوبۖ سے پیار کرتے ہیں اور اسے ہی ایمان سمجھتے ہیں۔ اور تیرے پیارے محبوت ۖ کے سب غلاموں کو اپنے سر کا تاج سمجھتے ہیں۔ قرآن پاک سے محبت کرتے ہیں۔ تو ایک عقیدہ کے ساتھ ساتھ ایک منزل بھی عطا فرما۔ ایک سفر، ایک منزل اور ایک وحدث کیوں کہ یہی سب کچھ ہے۔ کامیابی بھی، کامرانی بھی، خوشی بھی، پھول بھی، عطر بھی اور خوشبو بھی اپنی محفل میں مجھے بلوا کے دیکھ۔ یا میری تنہائیوں میں آگے دیکھ۔ میں تیرے تاریخ ہوں مجھ کو نہ چھوڑ بھولنے والے مجھے دہرا کے دیکھ۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here