دو ہزار چار میں ارجینٹینا میں عورتوں کی چمپئن ٹرافی کے دوران کوچنگ کورس میں شرکت اور میچ انالسز کے لیے جانا ہوا تو دیکھا کہ پاکستانی ہاکی لیجنڈ شہباز سینئر نصاب کے طور پر پڑھایا جاتا ہے،ابھی ڈیڑھ ماہ سے جاری کرکٹ ورلڈ کپ کا ٹنٹا ختم ہوا رتجگوں کا سلسلہ تھما سکون ملا ،ایک عجیب اضطراری تھی کہ کیا ہوگا پاکستان سیمی فائنل میں کوالیفائی کرے گا کہ نہیں، کون کتنے رنز سے ہارے گا تو سیمی فائنل میں پاکستان کا ٹاکرا انڈیا سے دوبارہ ہوگا اور ہمیں اپنا بدلہ اتارنے کا موقع ملے گا اور انڈیا ورلڈ کپ میں پاکستان کے ہاتھوں شکست کا مزا چکھے گا مگر سب کی اُمیدوں پر پانی پھر گیا جب نہ ہی رن ریٹ ملا اورنہ ہی مخصوص وکٹوں سے فتح نصیب ہوئی اور تو اور ٹورنامنٹ شروع ہونے سے پہلے فیورٹ سمجھی جانے والی اور ورلڈ کپ میں تقریبا ہر ایک سے مار کھانے والی انگلش ٹیم نے بھی پاکستان کو ہرا کر رہتی سہتی کسر نکال دی ایسے لگتا تھا کہ آئی سی سی کی رینکنگ میں ون ڈے کی نمبر ون پاکستانی ٹیم نچلی طرف سے نمبر ون ہے بہرحال اس دفعہ مقابلے ہوئے اور خوب ہوئے کچھ نے کہا کہ آگے الیکشن ہے زردار ٹولہ سٹہ لگا کر الیکشن کے لیے مال جمع کر رہا ہے چونکہ نون کے سیٹھی کی چھٹی اور نئے چیئرمین کی تعیناتی سابق صدر زرداری صاحب کی سفارش پر ہوئی تھی، شک کرنا واجب تھا پر ثبوت کے بغیر بات میں وزن نہیں ہوتالہٰذا ایسی باتوں پر کان دھرنے سے احتراز برتنا ہی مناسب ہے ،فائنل میں انڈیا کی چالاکیاں ہوشیاریاں شاید نہ چل سکیں لیکن یہ کیا بات کہ جب اسی پچ پر انڈیا لمبا سکور کرتی تھی اور باقی ٹیمیں آدھے تک بھی نہیں پہنچ پاتیں کچھ تو چکر تھا جس کا کھوج لگانا کرکٹ کی بہتری کے لئے ناگزیر ہے پرایک بہت ہی دلچسپ بات سننے کو ملی جس کا مشاہدہ کالم کے شروع میں کر دیا گیا ہے بات یہ کہ چھ دفعہ ورلڈکپ جیتنے والی آسٹریلین ٹیم کے ایک سابق کامیاب ترین اور ورلڈکپ فاتح کپتان رکی پونٹنگ سے جب کسی نے پوچھا کہ آسٹریلیا کی اتنی مرتبہ جیت کس طرح اور کیسے ممکن ہوئی جس پر رکی پونٹنگ نے کہا کہ اس کے پیچھے ایک راز ہے وہ یہ کہ ہم سب کھلاڑیوں کو عمران خان کی کپتانی کا دور بطور نصاب پڑھایا جاتا ہے۔
٭٭٭