فیضان محدث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ!!!

0
130

محترم قارئین! آج مسلمانوں تو دنیا میں اربوں کی تعداد میں ہیں لیکن قرآن پاک کے پارہ نمبر11سورہ توبہ کی آیت نمبر112میں پروردگار عالم جل جلالہ ان مسلمانوں کا ذکر فرماتا ہے جو ا یمان کی نو صفتوں کے ساتھ موصوف ہوں اور جن کی عظمت شان کا یہ بیان ہے کہ وہ زمین پر چلتے پھرتے ہیں مگر عرش بریں سے ان کے نام رب العٰلمین کی بشارت اور خوشخبری کا پیام آتا ہے۔ دنیا میں جن کی ٹھوکروں سے کرامتوں کا ظہور اور آخرت میں جن کے قدموں پر جنتیں قربان ہیں۔ وہ خوش نصیب مسلمان وہی ہیں جو اس آیت میں بیان کی ہوئی نو صفات کے جامع ہیں۔ اب آپ ایک مرتبہ پوری آیت کریمہ کا ترجمعہ ملاحظہ فرمائیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ”توبہ کرنے والے، عبادت کرنے والے خدا کی تعریف کرنے والے، روزہ رکھنے والے، رکوع کرنے والے، سجدہ کرنے والے، احکام کی حفاظت کرنے والے، اسے محبوب! آپ ان مئومنین کو خوشخبری سنا دیجئے۔ (سورہ توبہ آیت نمبر112پارہ نمبر11) سب سے پہلی صفت ہے:توبہ کرنے والے یعنی مئومن پر لازم ہے کہ سب سے پہلے اپنے گناہوں سے توبہ کرے۔ یہ بات توواضح ہے کہ انسانوں میں انبیاء کرام علیھم السلام کا گروہ مقدس تو معصوم ہے۔ یعنی ان پاک جانوں سے گناہ ممکن ہی نہیں۔ اس بات پر اجماع اُمت ہے کہ انبیاء کرام کی مکمل زندگیاں تمام گناہوں سے پاک ہیں۔گناہ صغیرہ ہوں یا کبیرہ، رہے اولیاء اللہ تو یہ اگرچہ معصوم نہیں مگر یہ بھی اکثر گناہوں سے محفوظ ہی رہتے ہیں، باقی ان دو گروہوں کے سوا ہر شخص خواہ وہ کسی طبقے سے تعلق رکھتا ہو وہ ضرور گنہگار ہے۔ حدیث شریف میں ہے: ترجمہ، ”ہر آدمی گنہگار ہے اور بہترین گنہگار وہ ہیں جو اپنے گناہوں سے توبہ کرتے ہیں” مئومن کی توجہ خداوند قدوس کو بے حد پسند ہے لوگ عام طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ توبہ کرنے سے گناہ معاف ہوجاتا ہے مگر اتنا ہی نہیں کہ توبہ سے گناہ معاف ہوجاتاہے جی! اللہ رب العزت کی شان ستاری وغفاری کو کیا پوچھتے ہو؟ وہ تو قرآن مجید میں یہ ارشاد فرماتا ہے: ترجمعہ”یہی لوگ ہیں کہ اللہ ان کی برائیوں کو نیکیوں سے بدل دے گایعنی ایک ہزار گناہ کرکے کوئی گنہگار سچی توبہ کر لیتا ہے تو ارحم الراحمین فرشتوں کو حکم فرماتا ہے کہ اے فرشتو! میرے اس بندے کے ایک ہزار گناہوں کو ایک ہزار نیکی سے بدل دو۔ یعنی ایک ہزار نیکی لکھ دو۔ سچی توبہ کرنے والے لوگ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کیسے کیسے الطاف کریمانہ سے نوازے جاتے ہیں۔ بخاری شریف میں ہے”اگلی امتوں میں سے ایک بڑا مجرم اور پاپی تھا کہ جس نے ننانوے خون ناحق کئے ہوئے تھے۔ ایک مرتبہ اس قاتل کے دل میں خوف الٰہی کی لہرا ٹھی اور اس نے توبہ کا پکا ارادہ کرلیا اور کسی مولوی کے پاس فتویٰ پوچھنے کیلئے گیا کہ مجھے جیسے ننانوے ناحق خون کرنے والے کی بھی توبہ قبول ہوسکتی ہے۔ یا نہیں؟ اتفاق سے یہ مولوی نیم ملا یعنی آدھا مولوی تھا۔(اور مثل مشہور ہے کہ نیم حکیم خطرہ جان۔اور نیم ملاخطرہ ایمان) مولوی گرج کر بولا! خبیث، مردور ننانوے قتل کرکے اب توبہ کرنے آیا ہے(نوسو سوہے کھا کے بلی حج کو چلی) چل یہاں سے دور ہوجا تیری توبہ ہرگز نہیں قبول ہوگی۔ قاتل نے کہا کہ حضرت جی! جب میری توبہ قبول ہی نہیں تو ننانوے پھوٹ پھاٹ عدد کیسا؟ لائو پورے ایک سو خون کیوں نہ کردوں؟ یہ کہا اور تلوار اٹھا کر نیم ملاکی گردن پر ایسا بھرپور ہاتھ مارا کہ کدو کی طرح گردن کٹ گئی اور کھوپڑی دور جاکر گری۔ پھر ایک دن ناگہاں گناہوں کی ندامت نے دل میں چٹکی لی اور قلب میں خوف الٰہی کا چشم پھوٹ نکلا پھر فتویٰ دریافت کرنے کے لئے چل پڑا اور اب کی بار ایک کامل عالم کے پاس جاکر عرض کی کہ حضور! میں نے ایک سو خون ناحق کیا ہے کیا مجھ مجرم اور پاپی کی توبہ بھی قبول ہوسکتی ہے۔؟ عالم ربانی نے فتویٰ دیا اور چمکار کر فرمایا کہ اے شخص! مت گھبرا توبہ کا دروازہ کھلا ہوا ہے۔ یہ فتویٰ اور بشارت سن کر قاتل مچل گیا اور جوش مسرت میں اس کے آنسو نکل گئے۔ پھر اس عالم کامل نے اس کو حکم دیا کہ تم بیت المقدس چلے جائو اور وہاں کے عابدوں کے ہاتھ پر توبہ کرکے ان کی صحبت میں نیک عمل کرو۔ اللہ تعالیٰ تمہیں بخش دے گا۔ وہ فوراً ہی بیت المقدس کی طرف چل پڑا مگر راستے ہی میں اس کی موت آگئی۔ لیکن جذبہ شوق میں جب یہ شخص زمین پر گرنے لگا تو منہ کے بل گرا کہ کم سے کم اتنا تو اور میں بیت المقدس کی زمین کے قریب ہو کر مروں چنانچہ جوں ہی اس کا دم نکلا تو ایک طرف سے عذاب کے فرشتے اور دوسری طرف سے رحمت کے فرشتے اتر پڑے۔ عذاب کے فرشتے کہنے لگے کہ یہ ایک سونا حق خون کر چکا ہے اس لئے اس عذاب دیا جائے گا رحمت کے فرشتے بولے یہ توبہ کرچکا اور بیت المقدس کو چل چکا لہٰذا یہ ہمارا حصہ ہے اتنے میں ایک ایک فرشتہ اللہ تعالیٰ کا حکم لے کر نازل ہوا کہ زمین کو ناپ لیا جائے گا۔ اگر اس کے گھر سے بیت المقدس کی طرف سفر آدھے سے زیادہ ہوا ہے تر رحمت والے فرشتے لے جائیں اور اگر کم ہوا ہے تو عذاب والے لے جائیں، ناپا گیا تو پائوں دونوں منزلوں کے درمیان تھے لیکن چہرہ بیت المقدس کی طرف قریب تھا۔ بس رحمت والے فرشتے جیت گئے۔ اللہ تعالیٰ ہمیںبھی سچی توبہ کی توفیق عطا فرمائے(آمین)۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here