پاکستان میں نگران حکومت کو ایک سال ہو چکا ہے ،نگران حکومت کا کام الیکشن کرانا ہوتا ہے لیکن گزشتہ ایک سال میں نگران حکومت کے وزیراعظم نے دنیا بھر کے دورے کیے جن میں یورپ کے مختلف ممالک، مڈل ایسٹ اور امریکہ شامل ہیں، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایک ایلکٹڈوزیراعظم نے اتنے بیرون ملک دورے نہیں کیے ہوںگے جتنے نگران حکومت کے وزیراعظم نے کیے، اس دوران فوجی جنتا نے پورے سال پی ٹی آئی حکومت کے خلاف پکڑ دھکڑ کا سلسلہ جاری رکھا اور پھر ایجنڈا کے مطابق عمران خان سمیت کئی اہم رہنمائوں کو جیل میں ڈالے رکھا، پاکستان کی گزشتہ تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہر آنے والی حکومت نے ماضی کی حکومت کو معیشت کی بربادی کا قصور وار ٹہرایا ہے جبکہ ہر نئی حکومت نے ماضی کی حکومت سے بھی بدتر کام کیا یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان کی معیشت تباہ حال ہے ، تمام سابق حکمران پاکستان سے باہر مختلف ممالک میں عیاشی کی زندگی گزار رہے ہیں،وہ اپنے ہی ملک میں اپنے آپ کو محفوظ نہیں سمجھتے اور باوجود اس بات کہ ہر حکومت کے پیچھے فوجی حکومت ہوتی ہے ، ہماری اطلاع کے مطابق 8فروری کا الیکشن بھی ایک سکرپٹ الیکشن ہے، سکرپٹ کے مطابق پی ٹی آئی کو الیکشن سے باہر کیا گیا اور اپنی مرضی کے سیاستدانوں کو لانے کا پلان ہے، 8فروری کے الیکشن پر دنیا بھر کے ممالک کی نظر ہے ، اس لیے جس طرح الیکشن کرائے جا رہے ہیں ، اس سے پاکستان کی بڑی بدنامی ہوگی، جمہوریت کا کھلا مذاق اُڑایا جا رہا ہے جس طرح ایک مقبول پارٹی کے لوگوں اور خاص طور پر بڑے لیڈر کو پابند سلاسل کیا ہوا ہے ، اس سے الیکشن کا رزلٹ کچھ بھی ہو، اس عمل سے الیکشن کے بعد بیرون ممالک میں پاکستان کی بدنامی کا ایک سیلاب نظر آتا ہے ، دنیا بھر کا میڈیا 8فروری کے الیکشن کو جس طرح پیش کرنے والا ہے، اس سے پاکستان کی معیشت کو مزید بدترین نقصان کا خدشہ ہے، فوجی جنتا کو چاہئے کہ وہ اس الیکشن کو آزاد کرائے، اپنے آپ کو الیکشن سے مکمل طور پر باہر رکھے اور جو بھی الیکشن رزلٹ آئے اُسے حکومت دے کر ثابت کرے کہ پاکستان ایک آزاد جمہوری ملک ہے ،ہم نے سابق وزیراعظم کو کئی بارکہا تھا کہ آپ جوزبان نواز شریف کے لیے استعمال کر رہے ہیں یہی رویہ آپ کے خلاف بھی استعمال ہو سکتا ہے اور آج ہو رہا ہے ، دنیا اس الیکشن کو بالکل نہیں مانے گی ،قوم بھی اسے قبول نہیں کرے گی، عوام کو آزاد الیکشن کی ضرورت ہے ، وہ جسے چاہیں ووٹ دیں، یہی پاکستان کی ترقی و سلامتی کا واحد راستہ ہے ، جو جرنیل یا سیاستدان پاکستان سے کروڑوں ڈالر باہر لے جا چکے ہیں، اس سلسلے کو روکنے کا واحد راستہ جمہوریت کو پروان چڑھانا ہے، جمہوریت کو آزادی سے سانس لینے دیں ،عوام کی رائے کا احترام کریں ورنہ آنے والا وقت آپ کنٹرول نہیں کر سکیں گے ،کاش کوئی آپ تک ہمارا پیغام پہنچا دے کہ ہم اوورسیز ”پاکستان ”سے سچی محبت کرنے والے محب وطن لوگ ہیں ، ہماری دعا ئیں ہمیشہ پاکستان کی سلامتی کے لیے ہوتی ہیں،پاک فوج کو سیاست میں اتنا مت شامل کریں کہ اگلی نسل پاک فوج سے نفرت کرنا شروع کر دے کیونکہ پاک فوج اور عوام کا رشتہ بہت مضبوط اور پرانا ہے جس کو کسی بھی صورت خراب نہیں ہونا چاہئے ، فوج سرحدی معاملات کو دیکھتے ہوئے، رائے قائم کرتے ہوئے ہی بہتر اور پروفیشنل معلوم ہوتی ہے ناکہ ملکی سیاسی معاملات مداخلت کر کے ،پاکستان کی سیاسی تاریخ پر اگر نظر دوڑائی جائے تو ماضی میں سیاستدانوں اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان لڑائی، دوطرفہ فاصلوں کی خلیج کو وسعت دے کر سیاسی حکمرانوں کو اقتدار سے محروم کرنے کا باعث بنتی رہی ہے اور اس کی ابتدا پاکستان کے قیام کے کچھ عرصے بعد سے ہی شروع ہو گئی تھی۔پاکستان کی تاریخ میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ سے محاذ آرائی کا انجام کبھی نہ تو سیاست اور نہ ہی سیاستدانوں کے حق میں سامنے آیا۔ملکی تاریخ میں کئی وزرائے اعظم اپنی مدت پوری نہ کر سکے جس کی بڑی وجہ عسکری اور سول قیادت میں تنازعات قرار پاتی ہے۔یہ دنیا کی تاریخ ہے کہ جب بھی پاور ایلیٹ کو کوئی چیلنج آتا ہے تو وہ اپنی حیثیت کو برقرار رکھنے کے لیے طاقت کا مظاہرہ کرتی ہے۔پاکستانی سیاست اور سیاستدان ہر گزرتے دن کے ساتھ پہلے سے بھی زیادہ تقسیم کا شکار نظر آتے ہیں، 2018 کے عام انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ ن مشکلات کا شکار نظر آ رہی تھی تو اب 2024 کے الیکشن میں تحریک انصاف بظاہر ویسی ہی صورتحال کا سامنا کر رہی ہے اور اپنی اپنی مشکل کے وقت میں ان دونوں ہی جماعتوں نے اس مشکل کا الزام ‘اسٹیبلشمنٹ’ کے سر ڈالا ہے لیکن اس ساری صورتحال کے ذمہ دار کسی طور پر سیاستدان بھی ہیں، کسی بھی ملک کی پارلیمان میں سیاستدان عوام کے مسائل کا حل تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایسا کرنے کے لیے مختلف سیاسی جماعتوں کا آپس میں بات کرنا اہم سمجھا جاتا ہے لیکن گزشتہ چند برسوں میں سیاستدانوں کے درمیان ایک واضح تقسیم دکھائی دیتی ہے۔ اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ وہ آپس میں ایک دوسرے سے بات کرنے کو بھی ترجیح نہیں دیتے تو ایسے میں ملکی معاملات کا بہتری کی جانب آنا مشکل دکھائی دے رہا ہے۔
٭٭٭