فیضان محدث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ

0
49

محترم قارئین! یہ بات آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ خداوند قدوس نے کائنات عالم کی ہر چیز میں طرح طرح کی تاثیر اور قسم قسم کا اثر پیدا فرما دیا ہے۔ دنیا کی کوئی شے بھی تاثیر واثر سے خالی نہیں آپ اس کو محسوس کریں نہ کریں مگر یہ آفتاب کی طرح ایک روشن حقیقت ہے کہ کوئی شے دنیا کی ایسی نہیں جس میں کوئی نہ کوئی تاثیر نہ ہو۔ مثلاً آگ کی تاثیر جلا دینا ہے پانی کی تاثیر ٹھنڈا کر دینا ہے۔ چاند وسورج کی تاثیر روشن کر دینا ہے۔ یہ وہ تابناک حقائق ہیں جن سے دنیا کا کوئی انسان چشم پوشی نہیں کرسکتا۔ اسی طرح مختلف پتھروں کے ٹکڑوں میں، جڑی بوٹیوں کے پتوں میں، پھلوں، پھولوں میں، درختوں کی شاخوں میں، تنوں اور جڑوں میں، جانوروں کے خون، گوشت ان کے بال اور کھال میں، غرض! کائنات ارضی ہوں یا مخلوقات سماوی، سفلیات ہوں یا علویات، عالم کی تمام مخلوقات میں خاص خاص تاثیرات واثرات کی ایک مکمل دنیا سمائی ہوئی ہے اور کائنات خداوندی کا ذرہ ذرہ اہل نظر کی نگاہ شوق کو دعوت نظارہ دیتا ہے اور زبان حال سے اعلان کرتا کہ !
کچھ اور ہی نظر آتا ہے کاروبار جہاں
نگاہ شوق اگر ہو شریک بینائی
”نگاہ شوق، میسر نہیں اگر تجھ کو۔ تراوجود ہے قلب ونظر کی رسوائی
کائنات عالم کی یہ تاثیر فقط عالم اسفل اور عالم بالا کی نظر آنے والی مخلوقات ہی تک محدود ومنحصر نہیں بلکہ حد ہوگئی کہ ہمارے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ اور آوازوں میں تاثرات واثرات کی کار فرمائیاں اپنی پوری توانائیوں کے ساتھ ظاہر ہوتی رہتی ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ کچھ الفاظ کو سن کر ہمارے چہرے ہنسی خوشی کی روشنی سے چمک اٹھتے ہیں اور کچھ لفظوں کو سنتے ہی ہم رنج وغم کا ایک خاموش مجسمہ بن جاتے ہیں۔ کچھ ایسے جملے اور کلمات بھی ہیں جن کے کان میں پڑتے ہی ہمارے جسم کا رونگٹا رونگٹا اور بدن کا بال بال قہرو جلال کا ایک خوفناک آتش فشاں بن جاتا ہے۔ اور کچھ لفظوں اور فقروں کی سماعت سے ہمارا جذبہ بے قراری بیدار ہوجاتا ہے۔ اور ہم پر گریہ وزاری کا ایک سیلابی طوفان اُمنڈ پڑتا ہے، یہ سب الفاظ وکلمات کی تاثیرات واثرات نہیں ہیں تو اور کیا ہیں؟ انہیں الفاظ وکلمات کی تاثیرات کو بیان کرتے ہوئے ایک عربی شاعر کہتا ہے ترجمہ: نیزوں اور برچھیوں کے زخم تو بھر جایا کرتے ہیں لیکن زبان کا لگایا ہوا زخم نہیں بھرا کرتا، ثابت ہوگیا کہ الفاظ وکلمات جیسی تاثیر رکھتے ہیں ویسی تاثیر تو نیزے برچھیاں اور تلواریں بھی نہیں رکھتیں۔ حضرت خواجہ ابوالحسن خرقانی ر حمتہ اللہ علیہ ایک مرتبہ اپنے مریدین کے حلقے میں خدا کے اسم جلالت کی تاثیر بیان فرما رہے تھے اور یہ ارشاد فرما رہے تھے کہ مالک اگر”اللہ اللہ” کا ذکر خفی اپنے قلب صنوبری پر کرے تو چند یوم کی ریاضت سے اس کا قلب ذاکر ہوجائے گا اور اس نام پاک کے انوار وبرکات اور ایوان وکیفیات کو ذکر کرنے والا خود مشاہدہ کرے گا اور اس کو روحانی عروج محسوس ہونے لگے گا۔ غرض آپ طرح طرح سے اسم جلالت کے خواص واثرات بیان فرما رہے تھے۔ اتفاق سے مشہور فلسفی ابوعلی بن سینا بھی مجلس میں حاضر تھا۔ منطق وفلسفہ کے چرندوں نے اس کے دل ودماغ کے ایمانی باغ کو چرتے چرتے بالکل تاخت وتاراج کر ڈالا تھا یہ ملحدصفت فلسفی آپ کی تقریر سن کر ہنسنے لگا اور اس کو بڑا تعجب ہوا کہ بھلا لفظ ”اللہ” کے ذکر سے اتنی کیفیات اور اس قدر تاثیرات واثرات کا ظہور کیوں کر ہو سکتا ہے؟ حضرت خواجہ ابوالحسن خرقانی نے اپنے نور باطن سے اس فلسفی کے قلبی خطرات وخیالات کو بھانپ لیا اور تڑپ کر ارشاد فرمایا کہ ”اے بوعلی بن سینا تو گدھا ہے” اس لفظ کا سننا تھا کہ شرم وحیا اور رنج وغصہ سے اس کا چہرہ سرخ ہوگیا۔ آنکھوں میں غیظ وغضب کے شعلوں کی سرخی نمودار ہوگئی گردن کی رگیں پھول گئیں۔ اور منہ ایسا بگڑ گیا کہ گویا دس پانچ لیموں اس کے منہ میں ایک دم نچوڑ دیے گئے ہوں۔ حضرت خواجہ نے جب فلسفی کا یہ حال دیکھا تو فرمایا کہ کیوں؟ بوعلی بن سینا تجھے کچھ ہوش آیا۔ دیکھ! میں نے تیرے سامنے ایک حقیر جانور ”گدھا” کا نام لیا تو اس لفظ کی تاثیر کا تیرے اوپر اتنا اثر ہوا کہ تیرا پھول جیسا کھلا ہوا چہرہ دم زون میں مرجھا کر بالکل منحوس ہوگیا۔ اور تیری ہنسی خوشی کی آبادی پر رنج وغم اور غلیظ وغضب کی اسی بمباری ہوگئی کہ تو قہر وغضب اور ندامت وخجالت کا ایک ٹوٹا پھوٹا مکروہ مجسمہ بن گیا اے نادان فلسفی! جب ”گدھے” کے نام میں اتنی تاثیر اور اتنے زور کا اثر ہے تو کیا اخلاق عالم رب العالمین جل جلال کے نام نامی اسم گرامی میں کوئی تاثیر نہیں؟ یہ نورانی تقریر سن کر بوعلی بن سینا حیران رہ گئے اور ایک دم اس کے دل کے تمام دریچے کھل گئے۔ اور لفظ جلالت کی تاثیرات وکیفیات کے انوار آفتاب عالم تاب کی طرح اس کی نگاہوں کے سامنے اس شان سے جگمگانے لگے کہ اس کے دل ودماغ کے گوشے گوشے سے تجلیات ذوالجلال کے ہزاروں چراغ روشن ہوگئے اور اس کے ضمیر کی گہرائیوں میں پشیمانی کی ٹھوکروں سے ندامت کا ایک چشمہ ابل آیا جو اس کی دونوں آنکھوں سے آنسوئوں کا ایک سیلاب بن کر اُمنڈ پڑا۔ اور وہ حضرت خواجہ کے قدموں پر سر رکھ کر بھرائی ہوئی آواز میں یہ کہنے لگا کہ حضور والا! میں عہد کرتا ہوں کہ اس روشن حقیقت کا میں زندگی بھر اعلان کرتا رہوں گا۔ اللہ پاک حقائق کو سمجھ کر عمل کی توفیق عطا فرمائے اور ہم سب کو علم نافع عطا فرمائے(آمین)۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here