عمران خان کے دورہ امریکہ اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مسئلہ کشمیر کیلئے ثالثی کی آمادگی کے اظہار نے بھارتی اشرافیہ اور میڈیا کے سینوں میں پاکستان دشمنی کی مزید آگ بھڑکا دی ہے۔ ٹرمپ کے اس مسئلہ اور خطہ میں امن کے حوالے سے مودی سے بات کرنے کے حوالے پر خود مودی کی طرف سے تو بالکل خاموشی نظر آرہی ہے لیکن بھارت کے محکمہ خارجہ‘ میڈیا اور متعصب اشرافیہ کے سینے پر سانپ لوٹنے لگے ہیں اور ٹرمپ کے مو¿قف کی تردید نیز پاکستان دشمنی و مسئلہ کشمیر کے معاملے پر نہ صرف شور شرابا کیا جارہا ہے بلکہ را اور این ڈی ایس کے تعاون اور ٹی ٹی پی کے اشتراک سے دہشت گردی و ایل او سی کی خلاف ورزیوں سے پاکستان اور خطہ کے امن کے تاثر کو مجروح کرنے کی شیطانی و پاکستان دشمن حرکات کا ارتکاب کیا جارہا ہے۔ ہفتہ کو بھارتی و افغان سازش و مدد سے تحریک طالبان پاکستان کے افغان سپورٹڈ دہشت گردوں نے شمالی وزیرستان کے علاقے میران شاہ اور بلوچستان میں دہشت گردانہ کارروائیوں سے پاک فوج و ایف سی کے دس افراد بشمول ایک کیپٹن کے شہید کردیا۔ 24 سالہ شہید کیپٹن کاعاقب کی اگلے ماہ شادی ہونے والی تھی۔ کیپٹن کے علاوہ شہید جوانوں کی عمریں بھی 20 سے 30 سال کے درمیان تھیں۔ اتوار کو بھارتی افواج نے لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے چار معصوم شہریوں کو شہادت سے دوچار کیا۔ صدر‘ وزیراعظم‘ آرمی چیف اور سیاسی مخالفین قائدین نے اس کی مذمت بھی کی اور شہداءکو خراج تحسین بھی پیش کیا۔ میڈیا پر بھی ان حملوں کی مذمت کی گئی۔ تبصرے و تجزیئے گئے۔ وزارت خارجہ کا مذمتی بیان اور بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر کی طلبی کے رسمی معمولات عمل میں آئے لیکن اس تمام صورتحال پر ہماری حکومتی و سیاسی اشرافیہ کے اپنے مفاذاتی و تضاداتی طرز عمل میں کوئی فرق نظر نہیں آرہا۔ بھارت اور افغان ریشہ دوان حکمرانوں کا اشرف غنی جیسے سیاستدانوں‘ ایجنسیوں اور افغانستان میں ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کی پاکستان کے افغان عمل میں کردار کو غیر موثر بنانے کیلئے سازشوں کے خلاف ہمارے حکمران اور سیاسی مخالفین میں کوئی اجتماعیت اور اتفاق کی صورت نظر نہیں آرہی۔وطن کی محبت میں سرشار ہمارے جواں سال‘ عسکری فرزندوں اور معصوم شہریوں کی شہادت کے سدباب کیلئے ماسوائے عسکری اشرافیہ کوئی شعبہ خصوصاً سیاسی قیادتیں سنجیدہ نظر نہیں آتی۔ میڈیا بھی اپنی ریٹنگ بڑھانے میں ہی لگا رہتا ہے۔ یہ سب اپنے اپنے مفاد کے بیانیہ اور بدمعاشیوں میں ہی مصروف رہتے ہیں۔ سیاسی مخالفین اپنی کرپشن و بداعمالیوں کے باعث تحقیقات‘ احتساب‘ قید و بند اور سزاﺅں سے بچنے کیلئے حکومت مخالف تماشہ بازیوں میں لگے ہوئے ہیں جبکہ حکومتی طبقے مخالفین کو نیچا دکھانے کی تگ و دو میں شور شرابا کرتے نظر آتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ نہ صرف بیرونی عوامل بلکہ داخلی عوامل کیلئے کسی بھی ملک اور اس کے عوام کی مضبوطی‘ استحکام و خوشحالی لازم ہوتی ہے اور اس کیلئے معاشرے کے تمام طبقات خصوصاً سیاسی اشرافیہ کو ذاتی و مفاداتی معاملات سے بالاتر ہوکر ایک ہی سمت متعین کرنا ہوتی ہے۔ وطن عزیز میں صورتحال اس امر کی عکاس ہے کہ ہماری سیاسی اشرافیہ (حکومت ہو یا حزب مخالف) اپنے مفاد اور برتری کے کھیل کے علاوہ کسی اور سمت توجہ دینا ہی نہیں چاہتی۔ ملک اور عوام کے مفاد اور بہتری سے بڑھ کر انہیں اپنے مفادات زیادہ عزیز ہیں اور ان کا سارا عمل اسی ہدف کیلئے وقف رہتا ہے۔
ملک کی موجودہ سیاسی و معاشی صورتحال اس بات کی متقاضی ہے کہ سیاسی صورتحال اور عوام کو درپیش معاشی ناہمواریوں سے نکال کر تمام سیاسی قوتیں عملاً ایک ٹریک پر ہوں۔ حالت یہ ہے کہ حکومت سے محروم‘ الزامات و مقدمات کے طوفان میں گھری ہوئی قوتیں نئے نئے بیانیوں اور حوالوں سے حکومت گرانے کی جدوجہد میں لگی ہوئی ہیں جبکہ حکومتی ارکان و نمائندگان عوام کی بہتری کے اقدامات کی بجائے‘ مخالفین پر لفظی گولہ باری میں مصروف ہیں۔ سیاسی مخالفین کے حکومت مخالف اقدامات قارئین کے علم میں ہیں۔ آئینی موشگافیوں سے چیئرمین سینٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا تماشہ مہنگائی‘ بجٹ میں ٹیکسوں کے اضافے‘ بجلی‘ گیس اور پٹرول کے بے تحاشہ ریٹ روپے کی قدر میں کمی کی آڑ میں حزب اختلاف کا سیاسی تحریک چلانے کا اعلان اور مولانا ڈیزل کا تحفظ ختم نبوت کی تحریک کے نام پر مدرسوں کے بچوں کے اجتماعات کا انعقاد کبھی بھی حب الوطنی کے زمرے میں نہیں آتے۔ مولانا فضل الرحمن کو اس وقت کون سے ایسے عوامل نظر آئے جن کی بنیاد پر وہ ختم نبوت کے آفاقی و حقیقی عقیدے کی اسلامی جمہوریہ پاکستان میں تکذیب یا بے ادبی دیکھ رہے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ بقول وزیراعظم عمران خان‘ پہلی اسمبلی ہے جس میں ڈیزل نہیں ہے۔ مولانا کے سیاسی سفر پر نظر ڈالیں تو یہ حقیقت واضح ہے کہ موصوف نہ صرف اپنے حلقہ ارادت کے باعث ہر دور میں اسمبلی کے رکن بنتے رہے ہیں بلکہ ہر حکومت میں اقتدار کے مزے بھی لوٹتے رہے ہیں۔ ان کی انتخابی کامیابیاں بھی دراصل ان کے والد محترم کے حلقہ ارادت اور مدرسوں کے طفیل ہیں۔ یہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ ہر دور میں موصوف مال بناتے رہے ہیں۔ ڈیزل نام بلاوجہ ہی نہیں پکارا جاتا۔ سیاسی حوالے سے مولانا فضل الرحمن کا کوئی کریڈٹ نظر نہیں آتا۔ سیاسی جوڑ‘ توڑ ان کا مسلسل مشن رہا ہے۔ پاکستان سے تعلق کے حوالے سے موصوف کا گزشتہ برس یوم آزادی کے موقع پر بیان ریکارڈ پر ہے جو کسی بمی محب وطن پاکستانی رہنما کا موقف نہیں بنتا۔ بطور چیئرمین کشمیر کمیٹی بھی مولانا فضل الرحمن کا کردار محض مال بنانے اور وزارتی سہولتوں سے فیض اٹھانے پر ہی محمول ہے۔ مظلوم کشمیریوں کی عملی یا سفارتی حمایت و مدد اور قضیہ کشمیر کے عالمی منظر نامہ میں ابھارنے کیلئے موصوف نے کبھی کوئی کوشش نہیں کی۔ اپنے مقصد کیلئے تحفظ ختم نبوت کی آڑ میں شورش آزمائی کی اس کوشش میں مولانا ڈیزل کے ہمراہ پاکستان کے قیام کی دعویدار جماعت مسلم لیگ نواز اور خود کو پروگریسو عوامی پارٹی کہنے والی پی پی پی بھی ان کے ساتھ کھڑی ہوگئی ہیں۔ بظاہر ان کا بیانیہ ملک و عوام کو درپیش معاشی و معاشرتی مشکلات سے نجات دلانے کیلئے موجودو حکومت کے گرانے کا ہے لیکن حقیقتاً ان کی پریشانی اپنے قائدین کے خلاف تحقیقات‘ احتساب‘ قید و بند اور سزاﺅں سے نجات حاصل کرنا ہے جو ان کیلئے نوشتہ دیوار ہیں۔ مفاد پرستوں کا یہ گٹھ جوڑ ملک و عوام کی بہتری‘ خوشحالی و استحکام کی سمت سے بہت دور نظر آتا ہے۔
عمران خان کی قیادت میں موجودہ حکومت سے عوام کو بڑی امیدیں وابستہ تھیں اور ہیں کہ وہ ایک ایماندار‘ پختہ ارادہ اور عزم کے مالک رہنما ہیں اور ملک و قوم کی بہتری کیلئے مثبت اقدامات و سمت کا تعین کریں گے لیکن حالات یہ بتا رہے ہیں کہ خان صاحب اب تک اپنے ماضی کے مخالفانہ و تنازعی سیاسی بیانیہ و رویئے سے باہر نہیں نکل سکے ہیں اور کسی کو نہیں چھوڑوں گا‘ این آر او ہر گز نہیں دوں گا کی گردان میں ہی پھنسے ہوئے ہیں۔ ان کے وزرائ‘ مشیران‘ ترجمان اور پارٹی رہنما بھی اس بیانیہ کے اسیر ہیں۔ مخالف سیاستدانوں پر لعن طعن اور الزام تراشیوں کے علاوہ ان کا کوئی مثبت عمل نظر نہیں آتا۔ احتساب اور کھنگالنے‘ بدعنوانوں‘ ٹیکس چوروں کو پکڑنے کے چکر میں شریفوں کی پگڑیاں اُچھالی جاتی ہیں۔ بے جا گرفتاریاں کی جاتی ہیں۔ اس ہنگامہ خیزی میں بیورو کریٹس‘ کاروباری‘ اساتذہ حتیٰ کہ میڈیا کو بھی نہیں چھوڑا جاتا‘ نہ ہی عمر رسیدگی کا خیال کیا جاتا ہے۔ حال ہی میں 78 سالہ عرفان صدیقی کو جس طریقہ سے گرفتار کیا گیا‘ پولیس نے ہتھکڑیاں لگا کر جو رویہ اختیار کیا اور میڈیا کے احتجاج پر جس طرح مشیر اطلاعات‘ آئی جی و دیگر ذمہ داران نے متضاد بیانات دیئے ہیں‘ طوائف الملوکی کی واضح تصویر نظر آتے ہیں اور اس حقیقت کے غماز ہیں کہ حکومتی اشرافیہ کی سمت بھی درست نہیں ہے۔
ہمیں اس امر سے انکار نہیں کہ کپتان کی حکومت خارجی امور پر کامیابی سے عمل پیرا ہے اور پاکستان کا موقف و تاثر عالمی افق پر مثبت قرار پارہا ہے۔ کپتان کی مقبولیت اور معاشی امور و سرمایہ کاری کی راہیں بھی استوار ہورہی ہیں لیکن آپ کو اندر خانہ عوام کی بہتری‘ خوشحالی و بہتر زندگی کیلئے بھی فعال ہونا پڑے گا۔ آپ کے معتمدین اپنے فرائض و ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کے بجائے مخالفین سے محاذ آرائی میں ہی اپنی توانائیاں صرف کررہے ہیں۔ گویا آپ کی سیاست کی سمت بھی غیر متعین ہی نظر آتی ہے۔ کرپشن‘ منی لانڈرنگ‘ چوری کرنے والوں کو پکڑنا متعلقہ اداروں و عدالتوں کا کام ہے‘ انہیں کرنے دیں۔ عوام نے آپ پر اعتماد کیا ہے۔ ان کے اعتما پر پورا اترنے کیلئے صرف خارجی معاملات میں کامیابی ہی نہیں‘ عوام کی توقعات پر پورا اترنا بہت ضروری ہے اور آئندہ انتخابات میں کامیابی کی کلید ہے۔ یہی سیاست کی صحیح سمت ہے۔ با سمت مسافت کیلئے ملک و عوام کیلئے صحیح سوچ اور عمل لازم ہے۔ خصوصاً اس وقت کہ جب تمام ریاستی ادارے ایک ہی صفحہ پر ہیں۔ احتساب کے نام پر بیورو کریسی میں خوف‘ میڈیا کورٹس کے نام پر ابلاغ میں ردعمل اور عوام کی مالی و معاشی حالت و کسمپرسی پر مثبت غور اور عمل وقت کی ضرورت ہے۔
٭٭٭