فیضان محدث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ

0
45

فیضان محدث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ

محترم قارئین! اسلام ایک سچا دین ہے اس کی تعلیمات کی پیروی واشاعت سب مسلمانوں پر لازم ہے۔ گویا کہ ہر مسلمان بطور مسلمان ایک ذمہ دار ہے۔ اپنی اپنی بساط مطابقت کے مطابق ہمیں اسلام کی تعلیمات نبیۖ کی محبت میں سب انسانوں تک پنہچانے کی کوشش کرنی ہے۔ دعوت دین، شہادت حق اور تبلیغ کا وہی فریضہ ہمیں انجام دینا ہے جوخدا نے نبیۖ نے انجام دیا۔ لہذا وہی واعیانہ تڑپ پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے جو نبی علیہ السلام کا خصوصی اور امتیازی وصف ہے۔ لیکن یہ سب تڑپ اور شوق غلامئی مصطفیٰۖ کے تابع ہو۔ اللہ پاک کا ارشاد گرامی قدر ہے۔ ترجعہ:”اس نے تمہیں منتخب فرما لیا ہے یعنی اللہ نے اور دین کے معاملہ میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی۔ پیروی کرو اس دین کو جو تمہارے باپ ابراہیم علیہ الصلواة والسلام کا دین ہے۔ اس نے پہلے ہی تمہیں مسلم کے نام نے نوازا تھا۔ اور اسی سلسلے میں کہ رسول تمہارے لئے دین حق کی شہادت دیں اور ہم دنیا کے سارے انسانوں کے سامنے دین حق کی گواہی دو۔”یعنی امت مسلمہ سب ذمہ دار ہے اس کو پوری ذمہ داری سے غلام مصطفیٰ علیہ الصلواة والسلام بن کر محبت مصطفیٰ علیہ السلام کا پرچار کرنا ہے۔ جس طرح آخری رسول خاتم النبینۖ نے اپنے قول وعمل اور شب و روز کی تگ ودو سے دین حق دین اسلام کو واضح کرنے کا حق ادا کردیا۔ ٹھیک اسی طرح امت کو بھی دنیا کے سارے ہی انسانوں کے سامنے قول وعمل کی طاقت دے تعلیمات دین کو واضح کرنا ہے۔ اور اسی احساس فرض اور داعیانہ تڑپ کے ساتھ دین حق کی زندہ گواہی بن کر زندہ رہنا ہے۔ اپنی اصل حیثیت کو ہمیشہ نگاہ میں رکھنا چاہئے۔ اور اس کے شایان شان اپنی زندگی کو بنانے کی اور بنائے رکھنے کی کوشش مسلسل جاری رکھنی چاہئے۔ ہم دنیا کی عوام امتوں کی طرح ایک امت نہیں ہیں بلکہ ہمیں خدا تعالیٰ نے ایک امتیازی شان بخشی ہے۔ ہمیں دنیا کی تمام قوموں میں صدر کی طرح رہنمائی کا مقام حاصل ہے۔ ہم ہر افراط وتضریط سے پاک خدا کی سیدھی شاہراہ پر اعتدال سے قائم ہیں۔ اپنے نصب العین کا واقعی علم حاصل کرنا چاہئے اور شرح صدر کے ساتھ اپنے اپنانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ خدا کی نگاہ قدرت میں امت مسلمہ کا نصب العین قطعی طور پر یہ ہے کہ وہ کامل یکسوئی اور اخلاص کے ساتھ اس پورے دین کو نافذ کرے جو نبی پاکۖ لے کر آئے۔ اور جو عقائد وعبادت، اخلاق ومعاشرت اور معشت وسیاست الغرض انسانی زندگی سے متعلق تمام ہی آسمانی ہدایات پر مشتمل ہے۔ آپۖ نے اپنی ظاہری زندگی مبارکہ میں اس دین حق کو اپنی تمام تفصیلات کے ساتھ قائم فرمایا: آپ نے عقائد واخلاق کی تعلیمات بھی دیں۔ عبادات کے طریقے بھی سکھائے۔ دین کی بنیاد پر سماج کی تعمیر بھی فرمائی۔ اور انسانی زندگی کو منظم کرنے اور خیروبرکت سے مالا مالا کرنے والی ایک بابرکت اسٹیٹ بھی قائم کی خدا تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ ترجعہ: اے مسلمانو! خدا نے تمہارے لئے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا ہے جس کا حکم اس نے نوح کو دیا تھا۔ اور جس کی وحی اسے رسول ہم نے ایک کی طرف بھیجی ہے اور جس کی ہدایت ہم نے ابراہیم اور موسیٰ اور عیٰسی کو دی تھی کہ اس دین کو قائم کرو اور اس میں تفرقہ نہ ڈالو(الشوریٰ آیت نمبر13پارہ نمبر25)
خدا کا پیغام پہنچانے اور اس کے بندوں کو جہنم کے ہولناک عذاب سے بچانے کے لئے داعیانہ تڑپ اور مثالی دردو سوز پیدا کرنا چاہئے۔ نبیۖ کی بے مثال تڑپ اور بے پایاں درد کا اعتراف قرآن پاک نے اس انداز سے فرمایا ہے:ترجعہ: شاید اور ان لوگوں کے پیچھے اپنی جان ہلاک ہی کر ڈالیں گے۔ اگر یہ لوگ اس کلام ہدایت پر ایمان نہ لائیں” اور آپۖ نے اپنی اس کیفیت کو اس طرح بیان فرمایا ہے: ”میری مثال اس شخص کی سی ہے جس نے آگ جلائی اور جب آس پاس کا ماحول آگ کی روشنی سے چمک اٹھا تو یہ کیڑے پتنگے اس پر گرنے لگے اور وہ شخص پوری طاقت سے ان کیڑے پتنگوں کو روک رہا ہے لیکن پتنگے ہیں کہ اس کی کوشش کو ناکام بنائے دیتے ہیں۔ اور آگ میں گھُسے جارہے ہیں۔(اسی طرح) میں تمہیں پکڑ پکڑ کر آگ سے روک رہا ہوں اور تم ہو کہ آگ میں گرے جارہے ہو”(مشکوٰة شریف) ایک بار حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا نے آپۖ سے پوچھا: یارسول اللہ! اُحُد سے زیادہ سخت دن بھی کوئی آپ پر گزرا ہے۔ فرمایا یہاں عائشہ!”میری زندگی میں سب سے زیادہ محنت دن عقبہ کا دن تھا” یہ وہ دن تھا جب آپۖ مکے والوں سے مایوس ہو کر طائف والوں کو خدا کا پیغام پہنچانے کے لئے تشریف لے گئے۔ وہاں کے سردار عبدیا لعل نے غنڈوں کو آپ کے پیچھے لگا دیا اور انہوں نے پیغام رحمت کے جواب میں آپۖ پر پتھر برسائے۔ آپ لہولہان ہوگئے۔ پھر آپۖ انتہائی پریشان اور غمگین وہاں سے چلے۔ جب قرآن الشعالب پہنچے تو غم کچھ ہلکا ہوا۔ خدا نے عذاب کے فرشتے کو آپ کی طرف بھیجا۔ اس نے عرض کی حضور اگر آپ فرمائیں تو میں ابوقبیس اور جبل احمد کو آپس میں ٹکرا دوں اور ان دونوں پہاڑوں کے بیچ میں یہ بدبخت پس کر اپنے انجام کو پہنچ جائیں۔ رحمت عالم نے فرمایا: نہیں نہیں! مجھے چھوڑ دو کہ میں اپنی قوم کو خدا کے عذاب سے ڈراتا ہوں۔ شاید کہ خدا انہی کے دلوں کو ہدایت کے لئے کھول دے یا پھر ان کی اولاد میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو ہدایت کو قبول کرلیں گے۔”(بخاری ومسلم) اللہ تعالیٰ ہمیں حقائق سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور عمل کی توفیق عطا فرمائے(آمین)۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here