شوکت محمود شوکت: شوکتِ ادبیات!!!

0
56
ڈاکٹر مقصود جعفری
ڈاکٹر مقصود جعفری

شکوہِ قلم اصل میں شوکتِ قلم ہے۔ عصمتِ قلم عصمتِ مادر کے مترادف ہے۔ زندہ ضمیر وہ لوگ ہیں جن کے سریرِ خامہ میں نوائے سروش اور نوکِ خامہ پر نال سرفروش ہوتا ہے۔ قرآنِ مجید نے قلم کی قسم کھائی ہے۔ قانون فروشوں ، وطن فروشوں ، دین فروشوں اور عصمت فروشوں کا کیا تذکرہ کہ یہ لوگ ننگِ انسانیت ہیں اور ضمیر فروشوں کے قلم کے ذکر سے قلم بھی شرماتا ہے۔
شکوہِ قلم تو نے دیکھا نہیں
یہ جاہ و حشم تو نے دیکھا نہیں
قابلِ صد مبارک و مباہات ہیں ڈاکٹر شوکت محمود شوکت جو آبروئے قلم کے محافظ بھی ہیں اور ضامن بھی۔ آپ کے شعری مجموعے زخمِ خنداں، رقصِ شرر، معراجِ سخن شائع ہو کر اہلِ نقد و نظر سے دادِ تحسین پا چکے ہیں۔ تحقیق و ترتیب میں فانوس اور خراج آپ کا تحقیقی یادگار کارنامہ ہے۔ افسانوں کا مجموعہ تکمیلِ ذات اردو ادب کے افسانوں میں ایک نیرنگِ خیال اور صد رنگِ جمال ہے۔ یہ نثری کتاب آپ کے صفِ اول کے نثاراور صاحبِ طرز ادیب اور افسانہ نگار کی آئینہ دار ہے۔آپ حلق قرطاس و قلم کے چیرمین ہیں۔ آپ کے قلم سے زندگی کے حقائق ایسے قرطاس کی زینت بنتے ہیں جیسے قطر نیساں دہنِ ماہی میں صدف اور بطنِ صدف میں موتی بنتا ہے۔آپ کا زیرِ طبع مجموع کلام نوائے درد کے نام سے شائع ہو رہا ہے۔ اس میں ایک سو کے قریب منظومات اور قطعات ہیں۔ یہ کتاب گلِ صد رنگ ہے۔ دل کی ترنگ اور وجدان کا آہنگ ہے۔ اِس میں عقیدتی، مذہبی، عرفانی، ملی، قومی، سماجی اور انقلابی نظمیں ہیں۔ یہ گلدست گل تو ہے لیکن ہر گلے را رنگ و بوئے دیگر استوالا معاملہ ہے۔ نوائے درد ،اِ س کتاب میں ایک نظم ہے جسے آپ نیسرنام کتاب بنایا ہے۔ یہ نظم زندگی کی مختلف جہات و واقعات کی نمائندہ نظم ہے۔شوکت محمود شوکت بیک وقت شاعر، محقق، نقاد اور افسانہ نگار ہیں۔ آپ کی تخلیقی، تنقیدی اور تحقیقی خدمات اردو ادب میں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔بقولِ سعدی
این سعادت بزورِ بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here